بدھ‬‮ ، 27 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

برطانیہ کیلئے جہادی دلہنو ں کا مسئلہ اہم ایشو بن گیا،قومی بحث شروع

datetime 23  فروری‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لندن: برطانیہ میں یہ بحث اپنے عروج پر پہنچ گئی کہ شام میں اسلامک اسٹیٹ گروپ میں نوجوان لڑکیوں کی شمولیت کو کیسے روکاجائے۔ اس بحث کا آغاز کھاتے پیتے گھرانوں کی تین نوجوان لڑکیوں کے گھر سے بھاگ جانے کے حالیہ واقعے کے بعد ہوا تھا۔یہ تینوں اسکول کی قریبی سہیلیاں تھیں، ان میں خدیجہ سلطانہ سترہ برس کی جبکہ شمیمہ بیگم اور امیرہ عباس پندرہ پندرہ برس کی ہیں۔ انہوں نے لندن ایسٹ میں واقع اپنے گھروں منگل کے روز چھوڑ دیا اور استنبول فرار ہوگئیں۔ ان کے متعلق یہ خدشات بڑھتے جارہے ہیں کہ وہ شام کا سفر کریں گی اور آئی ایس میں شامل ہوجائیں گی۔ان تینوں نے دسمبر کے دوران ان کی ایک دوست کی گمشدگی کی تحقیقات کے دوران پولیس کو بتایا تھا کہ وہ شام گئی ہے، لیکن اسکاٹ لینڈ یارڈ کا اصرار ہے کہ اس وقت ایسا کچھ محسوس نہیں ہوا تھا، کہ یہ لڑکیاں خود بھی اسی طرز کے خطرے کی زد میں تھیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آیا انتباہی علامات کو نظرانداز کردیا گیا تھا، اور انہیں سفر سے روکنے کے لیے کچھ زیادہ کیا جانا چاہیے تھا۔بیگم کے نام سے ٹوئٹر کے ایک اکاؤنٹ کا استعمال کرتے ہوئے کسی نے پچھلے اتوار کو یہ اعتراف کیا تھا کہ اس نے اقصیٰ محمود کے ساتھ رابطہ کیا ہے۔ یہ خاتون گلاسگو، اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھتی ہیں، ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے پچھلے سال شام کا سفر کیا تھااور آئی ایس گروپ کے ایک جنگجو سے شادی کرلی تھی۔اقصیٰ کے گھروالوں نے اس کے اس اقدام کی سختی سے مذمت کی تھی، یہ سوال اْٹھا رہے ہیں کہ آخر اس سلسلے میں مناسب کارروائی کیوں کی گئی۔اقصی محمود کے خاندان کے وکیل عامر انور نے اتوار کے روز بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا ’’ہم پولیس کی اسپیشل برانچ کے ساتھ رابطے میں ہیں، جو اس کے سوشل میڈیا کے رابطے کو باقاعدگی کے ساتھ چیک اور نگرانی کررہی ہے۔‘‘انہوں نے کہا ’’حقیقت یہ ہے کہ وہ اب ایسے نوجوانوں کے ساتھ منسلک ہے، جو اس کو بھرتی کرنے کی کوشش کریں گے، اس کے گھروالوں کا کہنا ہے کہ اس ملک میں کیا واقعی سیکورٹی سروسز کچھ کررہی ہیں۔‘‘اس بحث سے اس مسئلے برطانیہ میں بڑھتی ہوئی تشویش کی عکاسی ہوتی ہے۔انسدادِ دہشت گردی کے ماہرین نے تخمینہ لگایا ہے کہ لگ بھگ پچاس خواتین آئی ایس میں شمولیت کے برطانیہ سے شام چلی گئی ہیں، جبکہ ’’جہادی دلہنوں‘‘ کی کہانیاں، برطانیہ کے چھوٹے اخبارات کے لیے خام مال بن گئی ہیں۔انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک ڈائیلاگ تھنک ٹینک کی جانب سے گزشتہ ماہ کیے گئے ایک جائزے کے مطابق یورپ بھر سے 550 خواتین نے عراق اور شام کا سفر کیا ہے، جہاں ان میں سے اکثر نے جنگجوؤں سے شادی کرلی ہے اور دیگر کی بھرتیوں میں مدد کررہی ہیں۔
تاہم اس رجحان کو روکنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے، اس پر مختلف آراء4 موجود ہیں۔اس مہینے سامنے آنے والے نئے قانون کے تحت ایسے برطانوی شہریوں کے پاسپورٹ ضبط کیے جاسکتے ہیں، جن پر شبہ ہو کہ وہ شام یا عراق کا سفر کرسکتے ہیں۔ اگرچہ ان لڑکیوں کے معاملے میں پہلے سے شبہ نہیں کیا گیا تھا۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی حکومت بھی آنے والے مہینوں میں اضافی اقدامات متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔جن میں باہر جاتے ہوئے پاسپورٹ کی چیکنگ اور ایئرپورٹ پر اسکریننگ میں اضافہ شامل ہیں۔ترکش ایئرلائنز جس کی پرواز سے یہ لڑکیاں استنبول فرار ہوئی تھیں، کا کہنا ہے کہ اس کی ذمہ داری مسافروں کے ویزوں کی چیکنگ ہے، اور پرواز سے قبل سیکورٹی کیمعاملات ایئرپورٹ حکام کی ذمہ داری ہے۔ڈیوڈ کیمرون کہتے ہیں کہ یہ معاملہ اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی ایسی نہیں ہے کہ ہم محض پولیس اور سرحدی کنٹرول کے ذریعے روک سکیں۔اس صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے انہوں نے اسکولوں، یونیورسٹیوں اور کالجوں پر زور دیا کہ وہ اپنے کردار کو تسلیم کریں۔لیکن سعیدہ وارثی جو برطانیہ کی پہلی مسلم خاتون وزیر تھیں، انہوں نے پچھلے سال حکومت کی غزہ پالیسی پر استعفٰی دے دیا تھا، انہوں نے خبردار کیا کہ کسی ایک نے بھی دہشت گرد بننے کے لیے سفر نہیں کیا۔انہوں نے اتوار کو سکائی نیوز پر انٹرویو دیتے ہوئے انٹرنیٹ کے کردار پر روشنی ڈالی جس نے مسلم نوجوانوں کے اندر بنیاد پرستی میں اضافہ کیا ہے۔اسی بات کی تائید انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کی روز فرینیٹ نے کی، انہوں نے اصرار کیا کہ آن لائن پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید کوششیں کی جائیں۔انہوں نے ان تین لڑکیوں کی طرز کے خاندانوں کی مزید مدد پر بھی زور دیا، تاکہ بنیاد پرستی کی علامات کی شناخت کی جاسکے۔ یاد رہے کہ ان خاندانوں نے ہفتے کے روز اپنی بچیوں کی واپسی کے لیے جذباتی اپیلیں کی تھیں۔روز فرینیٹ نے کہا کہ انتہاپسندی بہت زیادہ خوفناک ہے، لوگ اس کے ساتھ تعلق کے احساس کے لیے دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’یہ صرف ان لوگوں کے لیے ہی مخصوص نہیں ہے، جو عدم استحکام کا شکار ہیں۔ خوفناک انتہاپسندی کی جانب درحقیقت ہر قسم کے لوگ بڑھ رہے ہیں، جو بہت اچھا پس منظر رکھتے ہیں اور وہ بھی جو معاشی طور پر مستحکم ہیں۔‘‘



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…