مقبوضہ بیت المقدس (این این آئی )ماہرین آثار قدیمہ اس وقت ورطہ حیرت میں پڑ گئے جب صحرا النقب میں انہیں قدیم ترین مسجد کے مکمل اور بھرپور آثار ملے۔ مسلمانوں کی مسجد کا رخ کعبہ اللہ (مکہ المکرمہ) کی جانب ہے۔ ماہرین کو یقین ہے کہ یہ مسجد ساتویں یا آٹھویں صدی میں تعمیر ہوئی ہوگی۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق تاریخی حوالوں سے ثابت ہے کہ موجودہ اسرائیل جس سرزمین پہ واقع ہے۔
اس پر مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق کے دورحکومت میں (636 سن عیسوی) مسلمانوں کی حکومت قائم تھی۔اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے جرمنی کےنشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مسجد کی دریافت کو اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ نے انتہائی حیران کن قرار دیا ہے۔ جنوبی اسرائیل میں پھیلے صحرائی علاقے میں 1200 سالہ پرانی مسجد کی باقیات عرب بدوؤں کی بستی والے شہر راحت کے قریب سے ملی ہیں۔اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق ماہرین آثار قدیمہ جون سلیگمان اور شہور زور کا مسجد کی تعمیر کے متعلق کہنا ہے کہ یہ ساتویں یا آٹھویں صدی میں تعمیر ہوئی ہوگی۔ ماہرین کے مطابق ملنے والی باقیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چھوٹی مسجد ہوگی لیکن اپنے طرز تعمیر سے جدید دکھائی دیتی ہے مگر اس کو غالباً دنیا کی قدیم ترین مساجد میں شمار کیا جا سکتا ہے۔اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ کا دعویٰ ہے کہ اس جیسی مسجد کے باقیات دنیا کے کسی اور خطے سے برآمد نہیں ہوئے ہیں جو انتہائی حیران کن ہے۔جون سلیگمان اور شہور زورکے مطابق مسجد کا ڈھانچہ مستطیل اور اوپر سے کھلا ہوا ہے۔ نماز پڑھنے کے مقام پر محراب نہایت واضح ہے۔اسرائیلی ماہرین نے تسلیم کیا کہ مسجد کی محراب کا رخ مکہ المکرمہ کی جانب ہے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ 1200 سال قبل اس کو علاقے کے مسلمان کسانوں نے تعمیر کیا ہو گا۔اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق ماہر آثار قدیمہ گڈون اوینی یقین رکھتے ہیں کہ موجودہ اسرائیل میں دریافت ہونے والی یہ دنیا کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے۔مسجد کے ساتھ زرعی فارم کے آثار ملے ہیں جس کے ساتھ آبادی کے نشانات نمایاں ہیں۔ آبادی میں بنے ہوئے مکانات خاصی اہمیت کے حامل قرار دیے جارہے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ملنے والے مکانات کے آثار میں گودام، باورچی خانہ اور مہمان خانہ نمایاں ہیں۔