مکوآنہ (این این آئی)ذیابیطس کو خاموش قاتل کہا جاتا ہے،پچیس فی صد افراد کو علم نہیں ہوتا کہ وہ اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں، پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 3 لاکھ 3 کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے، ہر چوتھا پاکستانی نوجوان ذیابیطس کا شکار ہے، بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ جب ان میں ذیابیطس کی تشخیص ہوتی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ پرہیز کے حوالے سے یہ صرف ریفائن شدہ سفید چینی کا معاملہ ہے، چناں چہ وہ چینی کم کر کے اس کا متبادل لینے لگتے ہیں جیسا کہ براؤن شوگر اورگڑھ وغیرہ، ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ نقصان دہ نہیں ہے۔
کنسلٹنٹ ڈایابیٹالوجسٹ بی ایم راٹھور نے انکشاف کیا کہ ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر آ گیا ہے، جہاں 30 فی صد لوگ اس مرض کا شکار ہیںانھوں نے بتایا جن لوگوں کی فیملی ہسٹری ہے وہ تو ذیابیطس کے شدید خطرے سے دوچار ہیں ہی، لیکن شہروں میں ہمارا جو لائف اسٹائل بن گیا ہے، حتیٰ کہ گاؤں میں رہ کر بھی ہم لوگ اب واک نہیں کرتے، مرغن غذائیں کھاتے ہیں اور کاربوہائیڈریٹس کا استعمال زیادہ ہے، اس کی وجہ سے بھی مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
ماہر امراض ذیابیطس نے بتایا کہ گڑھ میں اگرچہ ریفائن شوگر نہیں ہے لیکن اس سے بھی خون میں گلائسیمک انڈس بڑھتا ہے، اس لیے خوراک کے سلسلے میں بے حد احتیاط لازمی ہے۔انھوں نے شوگر سے بچاؤ اور کنٹرول کے حوالے سے آسان حل بتایا کہ سب سے پہلے لائف اسٹائل تبدیل کرنے پر توجہ دینی چاہیے، جیسا کہ ہفتے میں تین سے پانچ دن باقاعدگی سے واک کرنا، اتنی واک کریں کہ اس میں آپ کو پسینہ آ جائے، اس کے بعد کھانے میں کاربوہائیڈریٹ یعنی نشاستہ کا استعمال کم سے کم کر دیں۔