واشنگٹن(این این آئی)نئے کورونا وائرس کی زیادہ تیزی سے پھیلنے والی نئی قسم سب سے پہلے برطانیہ میں دریافت ہوئی تھی اور اب تک متعدد ممالک میں پہنچ گئی ہے۔یہ نئی قسم یورپ، مشرق وسطی، ایشیا، افریقہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کے مختلف حصوں میں پہنچ چکی ہے۔اس نئی قسم کے زیادہ تر کیسز برطانیہ کا سفر کرکے مختلف ممالک آنے والے افراد میں سامنے آئے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق
برطانیہ میں نئی قسم کی دریافت کے بعد سے متعدد ممالک نے برطانیہ کے حوالے سے سفری پابندیوں کا اطلاق کیا تھا، تاہم محققین کا خیال ہے کہ یہ نئی قسم دیگر ممالک میں کئی ہفتوں پہلے ہی پہنچ چکی ہوگی۔بوسٹن یونیورسٹی کے نیٹ ورک سائنس انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر ایلیسنڈرو ویسپیگنانی نے بتایا ‘بدقسمتی سے کہانی میں ایک اور ٹوئیسٹ آچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ اب ویکسین تیار ہوچکی ہے، مگر امکان ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران وبا کی صورتحال مزید پیچیدہ اور صورتحال زیادہ سنگین ہوسکتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نئی قسم زیادہ تیزی سے پھیلنے والی ہے اور اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اس کی روک تھام کے لیے زیادہ اقدامات کی ضرورت ہوگی۔کینیڈا میں اب تک اس قسم کے کم از کم 2 کیسز کی تشخیص ہوچکی ہے اور وہ بھی ایسے جوڑے میں، جو بیرون ملک گئے ہی نہیں تھے، جس کا مطلب ہے کہ یہ برادری کی سطح میں پھیل کر ان تک پہنچی۔اس نئی قسم سے متاثر 7 افراد جاپان میں سامنے آچکے ہیں جو یا تو برطانیہ کا سفر کرکے آئے تھے یا وہاں سے آنے والے افراد سے رابطے تھے۔اس کے بعد جاپان نے جنوری کے آخر تک غیر رہائشی افراد کے لیے اپنی سرحدوں کو بند کردیاس تھا۔اسپین میں اس نئی قسم کے 4 کیسز میڈرڈ میں سامنے آئے، جبکہ 3 میں اس کا شبہ پے، یہ سب افراد حال ہی میں برطانیہ جاچکے تھے۔فرانس میں بھی
اس کا ایک کیس سامنے آچکا ہے، جو ایسا فرنچ شہری تھا جو برطانیہ میں مقیم تھا اور لندن سے وسطی فرانس 19 دسمبر کو پہنچا تھا، اس فرد میں علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔سوئیڈن میں بھی اس نئی قسم کا پہلا کیس ویک اینڈ پر سامنے آیا تھا اور وہ بھی برطانیہ سے گھوم کر واپس آیا تھا۔وائرسز میں میوٹیشنز ہوتی رہتی ہیں اور کورونا وائرسز میں بھی متعدد میوٹیشنز کو رواں برس کے دوران دریافت کیا جاچکا ہے،
مگر وہ معمولی تبدیلیاں تھیں۔اس کے مقابلے میں برطانیہ میں وائرس کی جو نئی قسم دریافت ہوئی اس میں 23 میوٹیشنز دریافت ہوئی، جن سے اس کے پھیلا کے افعال میں تبدیلیاں آئی ہیں۔گزشتہ ہفتے برطانوی محققین کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ یہ نئی قسم 56 فیصد زیادہ متعدی ہوسکتی ہے، مگر ایسے شواہد نہیں ملے جن سے ثابت ہوتا ہو کہ یہ نئی قسم بیماری کی شدت سنگین بنانے کا باعث بن رہی ہے۔جنوبی افریقہ، نائیجریا اور دیگر ممالک میں بھی کورونا وائرس کی ایک اور قسم کو دریافت کیا گیا ہے۔امریکا میں اب تک کورونا کی نئی قسم کے کسی کیس کی تشخیص نہیں ہوئی، مگر ماہرین کا خیال ہے کہ وہاں بھی یہ وائرس پہنچ چکا ہوگا۔