ریوڈی جنیرو(این این آئی)ہائی بلڈ پریشر کے نتیجے میں درمیانی عمر کے آغاز سے ہی یاداشت اور سوچنے کی صلاحیت پر منفی اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یہ بات برازیل میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔تحقیق میں دریافت کیا
گیا کہ ہائی بلڈ پریشر کا سامنا چاہے بڑھاپے میں ہی کیوں نہ ہو، اس کے نتیجے میں لوگوں کے دماغ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔برازیل کی ایک یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ہر عمر میں ہائی بلڈ پریشر سے بچنا ضروری ہے کیونکہ یہ ذہنی تنزلی کی جانب سے سفر تیز کردیتا ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ یہ کہنا ابھی بہت مشکل ہے کہ ہائی بلڈ پریشر براہ راست ذہنی تنزلی کے سفر کو تیز کرتا ہے تاہم ایسا ہوتا ضرور ہے۔اس تحقیق میں 7 ہزار افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں اوسطا 59 ال تھی۔تحقیق کے آغاز پر ان افراد کی بلڈ پریشر کی تاریخ کو مدنظر رکھا گیا تھا اور پھر 2 مواقعوں 2008/10 اور 2012/14 کے دوران بلڈ پریشر کو چیک کرنے کے ساتھ یاداشت، زبان کی صلاحیت، توجہ مرکوز کرنے اور دیگر ذہنی افعال کی جانچ پڑتال کی گئی۔محققین نے دریافت کیا کہ درمیانی عمر اور بڑھاپے میں بلڈ پریشر رنڈنگ زیادہ ہونے سے سوچنے کی صلاحیت میں تنزلی کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔تحقیق میں بتایا گیا کہ یاداشت کو ہائی بلڈ پریشر سے نقصان پہنچتا ہے، چاہے اس کی تشخیص 55 سال سے قبل ہو یا بعد میں۔محققین نے عمر، جنس، خطرے کے عناصر جیسے تمباکو نوشی اورر ذیابیطس کے ساتھ بلڈ پریشر کو مدنظر رکھ کر نتائج کو مرتب کیا۔محققین نے بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ درمیانی عمر میں بلڈ پریشر بعد کی عمر میں دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ اس سے ڈبلیو ایم ایچ کا لوڈ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔