لاڑکانہ(این این آئی)ایچ آئی وی ایڈز کے باعث قبل از وقت موت کے خطرے سے زیادہ مہلک ایچ آئی وی سے ہونے والی رسوائی ہے جولوگوں کو مار رہی ہے۔ایچ آئی وی کے بدنما داغ کے ساتھ زندگی گزارنا سب سے زیادہ تکلیف دہ شے ہے۔ رتوڈیرو میں جہاں سیکڑوں بچے اپنی کسی غلطی یا کوتاہی کے بغیر اس لاعلاج بیماری کا شکار ہوئے ہیں وہاں کے لوگوں نے متاثرہ خاندان سے متنفر اور خاموش سماجی
بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ ایچ آئی وی سے متاثرہ بچوں کے والدین کے عزیز و اقارب بھی ان کے خلاف گروہ بندی کررہے ہیں۔لوگوں کا مطالبہ ہے کہ وہ یا تو اپنے آبائی علاقوں میں چلے جائیں یا پھر سماجی بائیکاٹ کا سامنا کریں۔ رتو ڈیرو سے 6 کلومیٹر دور واقع سبحانی خان شیر کے 30 متاثرہ خاندانوں سے 6 ماہ سے اچھوتوں جیسا طرزعمل اختیار کیا جا رہا ہے کیونکہ حالیہ وبا کے دوران ان خاندانوں کے 32 بچوں میں ایچ آئی وی وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔متاثرہ بچوں کے والدین پرگائوں چھوڑنے کے لیے مسلسل دبائو ہے تاکہ علاقہ کے دوسرے بچے صحت مند رہ سکیں۔ سبحانی خان شیر کے ایک 32 سالہ پولیس اہلکار نے انکشاف کیا کہ ایچ آئی وی وائرس کے شکاربچوں کے والدین کو گائوں چھوڑنے اور اپنا الگ گائوں بسانے کے لیے مسلسل دبائوہے جب کہ کچھ خاندان ہجرت بھی کرگئے ہیں۔ایک اورمتاثرہ والد دل مراد گھنگرو نے بتایاکہ ہمارے بچے معصوم اور اس سماجی خلا سے انجان ہیں۔ ان بچوں کا علاج معالجہ کرنے والے ڈاکٹر عمران اکبر اربانی نے بتایا کہ رویئے پر متاثرہ خاندانوں نے آپسی میل جول بنا لیا ہے۔دوسری جانب سندھ ایڈزکنٹرول پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر سکندر میمن نے کہا کہ ایچ آئی وی متاثرین سے نفرت کی روک تھام کے لئے ہم علما کی خدمات لے رہے ہیں۔ تاہم سماجی روایات ہماری مہم سے زیادہ مضبوط ہیں۔