اسلام آباد(آن لائن) بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پولیو کے مزید 2 کیسز سامنے آنے کے بعد رواں سال ملک بھر میں پولیو کیسز کی تعداد 60 ہوگئی ہے۔پولیو کیسز کی تعداد گزشتہ سال سے 5 گنا زیادہ اور اس سے پچھلے سال سے 7.5 گنا زیادہ ہے۔نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کے پولیو وائرولوجی لیبارٹری کے حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے علاقے گلستان سے ایک
پولیو کیس سامنے آیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘پولیو وائرس سے متاثر ہونے والے 17 ماہ کے بچے کوایک مرتبہ بھی پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے تھے کیونکہ اس کے چچا اور دادا مذہبی بنیادوں پر پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر رہے تھے’۔انہوں نے بتایا کہ ‘بدقسمتی سے ہمیں اس علاقے میں سنگین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور رواں سال اپریل کے مہینے میں یہاں 2 خواتین پولیو رضاکاروں کا قتل بھی کیا گیا تھا’۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم اس معاملے پر فوج کی معاونت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تاکہ اس علاقے میں ویکسینیشن کو یقینی بنایا جاسکے’۔حکام کا کہنا تھا کہ ایک اور کیس خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت سے سامنے آیا جہاں 5 ماہ کی بچی میں وائرس کی تشخیص کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ بچی کے والدین نے پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کردیا تھا اور ان کے گھر میں مارکر موجود تھا جس سے وہ مہم کے پہلے روز ہی بچی کو نشان لگادیا کر ظاہر کرتے تھے کہ بچی کو وہ ہی دوا پلائی جاچکی ہے’۔وزیر اعظم کے ترجمان براے انسداد پولیو بابر بن عطا نے ان دونوں پولیو کیسز کی تصدیق کی۔خیال رہے کہ پولیو وائرس نہایت خطرناک وائرس ہے جو 5 سال کے کم عمر کے بچوں کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔یہ دماغ پر حملہ کرتے ہوئے جسم کو کام کرنے سے روکتا ہے جس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔پولیو کا کوئی علاج نہ ہونے کی وجہ سے اس کی ویکسین ہی بچوں کو اس مرض سے بچانے کا واحد ذریعہ ہے، جب بھی 5 سال سے کم عمر بچے کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں تو اس کی وائرس سے تحفظ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ 2017 میں صرف 8 اور 2018 میں صرف 12 پولیو کیسز سامنے آئے تھے۔رواں سال ملک میں سامنے آنے والے 60 پولیو کیسز میں سے 45 کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے جبکہ سندھ اور پنجاب میں 5، 5 کیسز سامنے آئے اور بلوچستان میں 5 کیسز سامنے آئے۔