کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک) وزیرصحت سندھ عذرا پیجوہو نے کہا ہے کہ ٹائی فائیڈ پر اعداد و شمار نہیں چھپائے البتہ بیماری کی وجہ سے ہونے والی اموات کا کوئی علم نہیں ہے، بھارت سے ویکسین اکتوبر میں ملے گی۔ کراچی ٹراما سینٹر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر صحت سندھ کا کہنا تھاکہ صوبے میں مہلک ٹائی فائیڈ کی وبا پھیلنے کا علم ہے اس حوالے سے حکومت اقدامات کررہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’سپربگ ٹائی فائیڈ پر حکومت نے اعداد و شمار نہیں چھپائے، ٹائی فائیڈ سے اموات ہوئیں مگر ان کی تعداد کا علم نہیں ہے‘۔ عذرا پیجوہو کا کہنا تھا کہ ’سپربگ ٹائی فائیڈ کی دوا بھارت میں تیار ہوتی ہے، بھارتی مینوفیکچرر نے حکومت سے معاہدہ کیا ہے کہ ویکسین اکتوبر تک فراہم کردی جائے گی جبکہ ہماری کوشش ہے جلد سے جلد مل جائے۔ صوبائی وزیر صحت کا کہنا تھا کہ’کانگو، نگلیریا وائرس پراتنی توجہ نہیں دی جاسکتی۔ وزیرصحت کا کہنا تھا ڈاکٹروں و توقع سے زیادہ مراعات دینے کا فیصلہ کیا تھا جس کی سمری بھی وزیراعلیٰ نے منظور کرلی تھی البتہ انہوں نے احتجاج کے ذریعے دباؤ ڈالا تو معاملہ رک گیا۔ دوسری جانب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ کے حوالے سے الرٹ اور اعلامیہ جاری کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ ’اب تک متاثر ہونے والے مریضوں کی تعداد 8 ہزار سے تجاوز کر گئی جن میں سب سے زیادہ کراچی سے کیسز سامنے آئے‘۔ سپر بگ ٹائیفائیڈ کی علامات ٹائیفائیڈ سے متاثرہ شخص بخار کی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے جس کے بعد اُس کے پیٹ اور سر میں شدید درد اور مسلسل قے (الٹیوں) جبکہ بھوک نہ لگنے کی شکایت ہوتی ہے۔ ماہرین کا مشورہ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈپرتھرڈجنریشن اینٹی بائیوٹکس ادویات کا اثر نہیں ہوتا، عوام ازخود دواؤں کے استعمال سےپرہیز کرے اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرے۔ احتیاطی تدابیر۔ پانی ابال کر پینا۔ ٹھنڈ میں احتیاط کرنا پھل ، سبزیاں استعمال سے پہلے دھونا۔باتھ روم استعمال کرنے کے بعد ہاتھ صابن سے دھونا۔گھر سے باہر کھانے سے احتیاط کرنا۔اچھے ڈاکٹر کو دکھانا۔اپنے طور پر ادویات لینے سے گریز کرنا۔یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں ہیں کہ ’ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ‘ کے نام سے جانی جانے والی مہلک بیماری سے متاثرہ مریض برطانیہ اور امریکا میں بھی موجود ہیں۔ پاکستان سے امریکا اور برطانیہ واپس جانے والوں میں ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ تشخیص کیا جارہا ہے۔۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق محکمہ صحت سندھ کے ساتھ مل کر ماہرین نے نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا تاکہ بیماری پر فوری قابو پایا جاسکے۔