‘میرا جسم پتھر کا ہوتا جا رہا ہے۔ بعض اوقات میں کوئی چیز پکڑنے کی کوشش کروں تو لگتا ہے کہ میرا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے۔’یہ کہنا ہے 37 سالہ سابقہ استانی جے ویردی کا جو ایک ایسی غیرمعمولی اور ناقابلِ علاج بیماری کا شکار ہیں جو ان کی جلد کو پتھر جیسی سخت بنا رہی ہے۔اس بیماری نے جے کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایک دن وہ ان کی جان بھی لے سکتی ہے۔
غیر ملکی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘ میرے بازو میں اٹھنے والا درد مجھے ہر وقت یاد کرواتا ہے کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔’اس بیماری کا نام سکلیروڈرما ہے اور اس کی وجہ سے جے وردی کی جلد اور جوڑ سخت ہو چکے ہیں۔ یہ ان کے پھیپھڑوں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے جو کہ سخت سے سخت تر ہوئے جا رہے ہیں اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اب ان کی حالت بد سے بدتر ہو گی۔ویردی کی زندگی ایک جہدِ مسلسل ہے اور ہر صبح وہ نہیں جانتیں کہ اس دن وہ کیا دکان تک جا پائیں گی یا باآسانی سانس بھی لے سکیں گی یا نہیں۔بظاہر جے ایک صحت مند خاتون نظر آتی ہیں۔ ان کی جلد کو پہنچنے والا نقصان ان کے لباس تلے چھپا رہتا ہے اور اس بیماری سے بدترین اثرات ان کے جسم کے اندر ہیں۔ اس صورتحال میں کسی عام شخص کو اپنی حالت کے بارے میں یقین دلانا بھی ان کے لیے آسان نہیں۔اس بیماری کی وجہ سے ان کے بہت سے خواب نامکمل رہے ہیں۔ انھوں نے شادی، بچوں اور ان سے جڑے مستقبل کے خواب دیکھنا چھوڑ دیے ہیں اور ان کی جگہ صرف اس امید نے لے لی ہے کہ کوئی معجزہ ہو اور وہ ٹھیک ہو جائیں۔لیکن ویردی کی زندگی ہمیشہ اس طرح نہیں تھی۔ سنہ 2010 میں، وہ لندن کے مضافاتی علاقے سلاؤ کے ایک سیکنڈری سکول میں آئی ٹی
کے شعبے کی سربراہ تھیں اور ایک سرگرم اور خوش و خرم زندگی گزار رہی تھیں۔اس برس انھوں نے تعطیلات میں اپنی بہترین دوست کیرولین کے ہمراہ یونانی جزائر پر جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ کیرولین ہی تھیں جنھوں نے ویردی کی جلد کی غیرمعمولی رنگت اور اس پر موجود خراشوں کو دیکھا۔ابتدا میں، ویردی نے ان تبدیلیوں کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا مگر وہ نہیں جانتی تھیں کہ یہ معمولی خراشیں اور بدلی رنگت ایک سنگین بیماری کا پیش خیمہ ہیں۔
ویردی کی اس بیماری کی تشخیص میں تین سال لگے۔ اس دوران، ان کے متعدد ٹیسٹ ہوئے اور بہت سے ڈاکٹروں سے مشورے کیے گئے۔ اس دوران ہر دن ویردی کے لیے زندگی مشکل ہوتی گئی، چاہے وہ قلم پکڑنا ہو یا ٹائپنگ یا پھر لیکچر دینا، یہ سب ان کے لیے چیلینج بن گیا۔ویردی اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ ہر ممکن حد تک معمول کی زندگی گزارنے کی کوشش کرتی رہیں لیکن جوڑوں کے درد، مسلسل تھکاوٹ، ہاتھوں کے
منجمد ہو جانے اور جسم میں مسلسل سوئیاں چبھنے کے احساسات کی موجودگی میں یہ آسان نہیں تھا۔’تقریباً 18 ماہ بعد میرے لیے یہ سب قابلِ برداشت نہ رہا۔ مجھے یاد ہے کہ میں گاڑی چلا رہی تھا اور اچانک میں نے رونا شروع کر دیا، میں نے اپنے ڈاکٹر سے ملاقات کی اور واضح طور پر اس سے پوچھا کہ مجھے کیا بیماری ہے۔’اس کے بعد، ویردی نے سکول چھوڑ دیا کیونکہ درد کی شدت کی وجہ سے ان کے لیے کام کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔
ان کے دوستوں کو یقین نہیں تھا کہ وہ ایسی عجیب بیماری کا شکار ہیں۔ ویردی کے مطابق ‘یہ بیماری باہر سے نہیں دیکھی جا سکتی، یہ صرف میں ہی اندر اندر محسوس کر سکتی ہوں۔’انھوں نے اپنے دوستوں کو بلایا اور ان سے کہا کہ وہ ان کے جسم پر ہاتھ پھیر کر محسوس کریں کہ کیسے ان کا جسم کسی دھات کی طرح سخت ہوتا جا رہا ہے۔اب یہ بیماری ان کے پھیپھڑوں تک پہنچ گئی ہے۔ انھیں سانس لینے میں دشواری بھی ہوتی ہے
اور یہ ان کے اعضائے رئیسہ کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ صحیح طریقے سے بات بھی نہیں کر پاتیں۔ویردی کا کہنا ہے کہ اس بیماری کی وجہ سے حال ہی میں انھیں ایک تعلق قائم کرنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنی پڑی۔ ‘میں اپنی معذوری سے واقف ہوں۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں کسی بچے کو جنم دوں اور پھر اسے دنیا میں چھوڑ جاؤں۔ میں نے اپنی زندگی میں 20 ہزار بچوں کو پڑھایا ہے، لیکن افسوس، میں اب خود ماں بننے
سے ڈرتی ہوں۔’ویردی کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ دل کھول کر مسکرایا کرتی تھیں۔ ‘مجھے ہنسنا پسند ہے۔میں جب کلاس میں داخل ہوتی تھی تو سب سے پہلے مسکراتی تھی۔ یہ بات چیت کے آغاز کے لیے بہترین ہے۔آج بھی میں مسکراؤں تو لگتا ہے کہ سب ٹھیک ہے۔’تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ‘مجھے لگتا ہے کہ ایک دن میرا پورا جسم ایک پتھر بن جائے گا، میں مسکرا بھی نہیں سکوں گی اور ایک مجسمہ سی بن جاؤں گی۔’ویردی کے معالج ڈاکٹر رچرڈ رسیل کہتے ہیں کہ ویردی ان ہیلرز کی مدد سے سانس لے سکتی ہیں اور سٹیرائڈز کی مدد سے سوجن بھی کم ہو سکتی ہے لیکن اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے۔