اسلام آباد (نیوز ڈیسک )ہم سردیوں کی نسبت گرمیوں میں خود کو زیادہ صحت مند محسوس کرتے ہیں،لیکن کیوں؟ یہ بات آج تک معمہ بنی ہوئی تھی لیکن اب سائنسدانوں نے اس راز سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے دنیا بھر سے 16ہزار سے زائد لوگوں کے ڈی این اے پر تحقیق کرنے کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارے جسم کا مدافعتی نظام موسم کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔تحقیق میں وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ ہم گرمیوں کی نسبت سردیوں میں زیادہ بیمار کیوں ہوتے ہیں۔محققین کا کہنا ہے کہ ہارٹ اٹیک، ذیابیطس، اعصابی تناﺅ اور ذہنی اختلاج جیسی بیماریاں موسم سرما میں زیادہ شدت اختیار کر جاتی ہیں۔ان میں سے ہارٹ اٹیک زیادہ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ سال میں کچھ عرصہ ہمارے جسم کے جینز کا ایک چوتھائی حصہ زیادہ متحرک ہوتا ہے، ان موسمی جینز میں سے بیشتر کا تعلق ہمارے مدافعتی نظام سے ہے۔مدافعتی نظام کے جینز میں موسم کے ساتھ ساتھ تبدیلی یوں تو ساری دنیا کے لوگوں میں ہوتی ہے لیکن اس تبدیلی کی شرح مختلف کرہ ارض کے لوگوں میں مختلف ہے۔آسٹریلیا کے باشندوں میں یہ جینز گرمیوں میں سب سے زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔ اس بات کا پتہ نہیں چل سکا کہ اجسام کس طرح موسم گرما سے موسم سرما میں جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں لیکن ایک خیال ہے کہ اس میں سورج کی روشنی کا عمل دخل ہوتا ہے۔چونکہ آئس لینڈ میں گرمیوں میں بھی سورج کی روشنی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اس لیے وہاں کے لوگوں کے جینز پر موسم کا اثر انتہائی کم دیکھا گیا ہے۔محقق پروفیسر جان ٹوڈ نے بتایا کہ تحقیق کے نتائج کافی حیران کن تھے، اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملی ہے کہ دل کی بیماریوں سے لے کر دماغی امراض تک خطرناک قسم کی بیماریاں سردیوں میں کیوں زیادہ خطرناک ہو جاتی ہیں۔سردیوں کے موسم میں دھوپ میں زیادہ رہنا بھی ہمارے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔پروفیسر ٹوڈ نے بتایا کہ تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ جن لوگوں نے سرد علاقوں سے کسی گرم موسم والے ملک میں ہجرت کی وہ پہلے سے زیادہ صحت مند ہو گئے۔جو لوگ سردیوں میں دھوپ سے زیادہ استفادہ نہیں کر سکتے انہیں چاہیے کہ اچھا کھائیں اور گرم کپڑے پہنیں۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں