اتوار‬‮ ، 14 دسمبر‬‮ 2025 

سائنسدانوں نے شہد کی مکھیوں کو موت سے بچانے کا طریقہ ڈھونڈ لیا

datetime 29  اگست‬‮  2015 |

سڈنی (نیوز ڈیسک)آسٹریلوی سائنسدانوں نے کہا ہے کہ وہ دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی آبادی کی وجوہات جاننے کے لیے ان مکھیوں کے ساتھ مائیکرو سینسر نصب کیے ہیں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شہد کی مکھیاں دنیا بھر میں قریب 70 فیصد فصلوں کی پولینیشن یا تخم کاری میں مدد کرتی ہیں تاہم ان کی آبادی میں بہت تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے جس کی وجہ سے فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے خدشات جنم لے رہے ہیں۔محققین کی طرف سے قبل ازیں کہا گیا تھا کہ شہد کی مکھیوں کے چھتوں میں کئی ملین کی تعداد میں جوان مکھیوں کی موت کی وجہ جسے کالونی کولیپس ڈِس آرڈر کا نام دیا جاتا ہے، خون چوسنے والے مائٹس یا ننھے طفیلیے اور موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔آسٹریلیا کی نیشنل سائنس ایجنسی سی ایس آئی آراوسے تعلق رکھنے والے محقق گیری فِٹ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایاکہجو مائیکرو سینسرز ہم استعمال کر رہے ہیں ان کی مدد سے مکھیوں کے ان کے چھتوں اور باہر ماحول میں ان کے طرز عمل کا درست طور پر تعین کر سکتے ہیں۔ان سینسرز کا پھیلا 2.5 ملی میٹر ہے جبکہ اس کا وزن محض 5.4 ملی گرام ہے۔ یہ وزن اس پولن سے بھی کم ہے جو شہد کی مکھیاں جمع کرتی ہیں۔ یہ سینسر یورپی شہد کی مکھیوں کی کمر پر چپکا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انتہائی ڈیٹا اکھٹا کرنے والے جدید ریسپرٹرز مکھیوں کے چھتے میں نصب کر دیے جاتے ہیں۔سی ایس آئی آراوامریکی ٹیکنالوجی کمپنی انٹیل اور جاپانی کمپنی ہٹاچی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ عالمی سطح پر مکھیوں کے بارے میں اعداد وشمار جمع کرنے اور ان کو درپیش خطرات کا جانچنے کے لیے یہ آسٹریلوی ادارہ اب سینسرز تک رسائی اور اعداد وشمار کے تجزیے کی مفت سہولت پیش کر رہا ہے۔سائنسدان آسٹریلوی ریاست تسمانیہ کے شمالی جزیرے میں قریب 10 ہزار شہد کی مکھیوں اور ان کے چھتوں میں یہ سینسرز نصب کر چکے ہیںسائنسدان آسٹریلوی ریاست تسمانیہ کے شمالی جزیرے میں قریب 10 ہزار شہد کی مکھیوں اور ان کے چھتوں میں یہ سینسرز نصب کر چکے ہیںسی ایس آئی آراوکے شعبہ ہیلتھ اینڈ بائیو سکیورٹی ڈویڑن کے سائنس ڈائریکٹر گیری فِٹ کے مطابق، ہم ان سینسرز کے ذریعے اس تمام ماحول کے بارے میں معلومات جمع کر رہے ہیں جہاں جہاں یہ مکھیاں جاتی ہیں۔وہ مزید کہتے ہیں، اس سے ہمیں ان کے طرز عمل میں تبدیلی کا پتہ چلتا ہے۔ کتنا وقت اور کتنی مرتبہ وہ خوراک جمع کر رہی ہیں، کیا وہ خوراک لے رہی ہیں، کیا وہ پولن جمع کر رہی ہیں یا یہ کہ وہ چھتے کے اندر کیا کر رہی ہیں۔ اس کے بعد ہم دیکھ سکتے ہیں اور نتائج اخذ کر سکتے ہیں کہ وہ مختلف دبا کی کیفیات میں کس طرح کا رد عمل دکھا رہی ہیں۔اب تک سائنسدان آسٹریلوی ریاست تسمانیہ کے شمالی جزیرے میں قریب 10 ہزار شہد کی مکھیوں اور ان کے چھتوں میں یہ سینسرز نصب کر چکے ہیں جبکہ مزید سڈنی اور کینبرا شہر میں مکھیوں کے بارے میں جاننے کے لیے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جانا ہے۔فِٹ کے مطابق برازیل میں بھی قریب اتنی ہی تعداد میں مکھیوں کے بارے میں محققین جائزہ لے رہے ہیں



کالم



اسے بھی اٹھا لیں


یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)

عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…

جنرل فیض حمید کے کارنامے

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…