بدھ‬‮ ، 08 جنوری‬‮ 2025 

وٹامنز کی زیادتی نقصان دہ

datetime 14  جولائی  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوزڈیسک )ہم میں سے بہت سے افراد بلا سوچے سمجھے حیاتین کی گولیاں کھاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ خوب طاقت ور ہو جائیں گئے۔ ماہرین کو اس اسے اختلاف ہے اور وہ کہتے ہیں کہ کثیر الحیاتین(ملٹی وٹامنز) کی گولیاں کھانے سے کوئی بیماری دور نہیں ہوتی۔ اگر آپ مناسب غذائیں نہیں کھا رہے تو صرف حیاتین کھانے سے غذائی کم زوری دور نہیں ہو سکتی۔
معالجین ایک زمانے میں اپنے مریضوں کو تلقین کرتے تھے کہ وہ کثیر الحیاتین کی گولیاں نہ کھائیں۔اس لیے کہ ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور یہ پیسے کی بربادی ہے ۔ اب وہ اس موضوع پر پھر سے تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ کچھ مخصوص معدنیات(مزلز) اور حیاتین کی زیادتی سے بیماریاں لاحق ہونے کا خدشہ رہتا ہے ۔ صحت مند افراد کثیر الحیاتین کی گولیاں کھاتے ہیں جب کہ انھیں ان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ عمر رسیدہ افراد کا معاملہ قدرے مختلف ہوتا ہے اس لیے کہ ان کے جسم میں حیاتین کی کمی ہوجاتی ہے مثال کے طور پر حیاتین ب 12 (وٹامن بی 12) کو وہ غذاوں سے ہضم نہیں کر پاتے۔ اس کے علاوہ وہ افراد جنھیں کام کاج کیلئے گھر سے نکلنا پڑتا ہے اوروہ بہت دیر تک تیز دھوپ میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی توانائی ضائع ہوجاتی ہے۔ا ن کیلئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ حیاتین د کی گولیاں کھائیں۔ حاملہ خواتین جنھیں غذواں سے فولک ایسڈ کی کی مناسب مقدار نہیں مل پاتی یہ خدشہ ہوتا ہے کہ پیدا ہونے والے بچے کا عصبی نظام کم زور نہ ہو جائے اس لئے انھیں یہ گولیاں کھلائی جاتی ہیں۔ بہت سے افراد کیلئے حیاتین کی کمی مسئلہ نہیں ہوتی۔ اگر وہ عمدہ غذائیں کھائیں پھل اور سبزیوں کی طرف سے بے توجہی نہ برتیں تو انھیں حیاتین کی گولیاں نہیں کھانی پڑیں گی۔ ڈاکٹر بنجامن کیبا لیرو کہتے ہیں ہمارے مسائل بہت بڑھ چکے ہیں ،لہذا ہمیں ان سے بچنے کیلئے صحت بخش ادویہ کھانی پڑتی ہیں۔ بہر حال یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ان کی مقدار حد سے تجاوز نہ کر جائے۔جہاں تک حیاتین الف( وٹامن اے) کا تعلق ہے تو معالجین کی طرف سے اس کی مقدار مقرر ہے۔ اگر آپ اس مقدار سے معمولی سا بھی تجاوز کریں گے تو پریشانی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
حیاتین الف:
حیاتین الف جگر میں ہوتی ہے۔ بعض ممالک میں اسے دودھ، مشروبات اور دلیے میں بھی شامل کیا جاتا ہے ۔ڈاکٹر جان مک گوان کہتے ہیں۔ مختلف غذاوں کو طاقت ور اور توانا بنانے کیلئے ان میں حیاتین الفب بھی شامل کر دی جاتی ہے ۔جس سے حیاتین کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے۔ حیاتین ج ( وٹامن سی) پانی میں حل ہوجاتی ہے اگر اس کی مقدار جسم میں زیادہ ہو جائے تو یہ پیشاب کے راستے خارج ہو جاتی ہے مگر حیاتین الف کا معاملہ جدا ہے یہ جسم میں جمع ہو جاتی ہے۔
حال ہی میں تحقیق ہوئی ہے کہ وہ افراد جن کے خون میں حیاتین الف کی مقدار بڑھ جاتی ہے ان کی ہڈیوں کی گنجانیت کم ہو جاتی ہے اور بھر بھرا پن پیدا ہو جاتا ہے بعض کثیر الحیاتین گولیاں 1500 مائکرو گرام کی ہوتی ہیں جو مجوزہ مقدار سے دگنی ہے ۔چناں چہ اگر انھیں روزانہ پابندی سے کھایا جائے تو ہڈیاں کم زور ہو جاتی ہیں اور دباو پڑنے پر ٹوٹ بھی جاتی ہیں۔
بازار میں کچھ کثیر الحیاتین کی گولیاں ایسی بھی فروخت کی جا رہی ہیں جن میں 4500 مائکرو گرام ہوتے ہیں جب کہ یہ مقدار امریکا کی قومی سائنس اکیڈمی کی تجویز کردہ مقدار سے زیادہ ہے اگر معالج نے آپ کو حیاتین الف کی گولیاں روز کھانے کے لئے مقدار مقرر کر دی ہے۔ تب بھی آپ کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس لئے کہ غذاوں میں حیاتین الف کی غیر معمولی مقدار شامل ہو کر جسم میں پہنچ جاتی ہے۔ بالکل اسی قسم کے سوالات دوسرے معدنیات اور حیاتین کے بارے میں بھی کیے جاتے ہیں جن میں حیاتین ج اور ھ شامل ہیں۔
حیاتین ج اور ھ:
ڈاکٹر رابرٹ رسل ٹفٹس یونی روسٹی میں ریسرچ سینٹر کے ڈائرکٹر ہیں وہ کہتے ہیں کہ لوگوں میں جو حیاتین بہت مقبول ہیں ان میں حیاتین ج اور ھ (ای) شامل ہیں ۔ سائنس دان ایک زمانے میں سوچا کرتے تھے کہ یہ دونوں حیاتین دل کی بیماریوں اور سرطان کا ازالہ کر سکتی ہیں۔ حیاتین ج پر گہری تحقیق کرنے سے انکشاف ہو اکہ یہ دل کی بیماری میں فائدے مند نہیں ہے اور جو افراد سے پابندی سے کھا رہے ہیں انھیں فالج بھی ہو سکتا ہے ڈاکٹر رسل مزید کہتے ہیں : یہ دو حیاتین جن کی لوگوں کو زیادہ ضرورت نہیں ہوتی سب سے زیادہ کھائی جاتی ہیں۔
فولاد:
ڈاکٹر رچرڈ ووڈٹفٹس میں قائم لیبارٹری کے ڈائرکٹر ہیں۔ان کہنا ہے کہ فولاد زیادہ مقدار میں کھانے سے دل کی بیماریاں ہونے کا خدشہ ہوجاتا ہے۔ انھوں نے لیبارٹری میں کام کرنے والے 12 افراد سے پوچھا کہ وہ کون سی معدنیات کھاتے ہیں تو انھوں نے بتایا کہ وہ فولاد کی گولیاں کھاتے ہیں حال آنکہ انھیں ان کی ضرورت نہیں تھی۔
اس کے علاوہ جو تحقیق کی گئی ہے اس سے معلوم ہو ا ہے کہ کثیر الحیاتین کی گولیوں سے کوئی بیماری دور نہیں ہوتی اس لئے کہ ان میں شامل بہت سی حیاتین ایک دوسرے کی ضد ہوتی ہیں اور اس طرح ان کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔ وہ معدنیات جو ایک دوسرے کی مخالف ہوتی ہیں جسم میں جذب نہیں ہو پاتیں، مثلا جست فولاد سے مخاصمت رکھتا ہے اور فولاد کیلسئیم سے۔
ایسی خواتین جو دل کی بیماریوں میں مبتلا رہتی تھیں ان پر تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ مانع تکسید اجزا(Antioxidants) حیاتین کھاتی تھیں جن سے ان کی شریانوں میں چکنائی جم گئی تھی اور وہ سکڑ کر تنگ ہو گئی تھیں۔
معالج کیبالیروکا کہنا ہے کہ لوگ خود فریبی میں مبتلا ہیں۔ وہ روزانہ الم غلم غذائیں (Junk Foods) کھائیں گئے تو حیاتین انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتیں البتہ اور افراد جو معتدل غذائیں اور پھل سبزیاں کھاتے ہیں انھیں کم بیماریاں ہوتی ہیں۔
ہم بیٹا کیروٹین ،حیاتین ھ اور مانع تکسید کھاتے ہیں لیکن وہ موثر نہیں ہوتیں مگر لوگ چاہتے ہیں کہ انھیں بیماری دور کرنے کے لئے جادوئی گولیاں مل جائیں جو ممکن نہیں۔



کالم



صفحہ نمبر 328


باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…