اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) انسانی دماغ قدرت کی چند شاندار ترین تخلیقات میں سے ایک ہے۔ اس کے اندر یادداشت، فلسفہ ، قوت فیصلہ اور نجانے کیا کچھ کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ انسانی ذہن کچھ ایسی حقیقتوں کو بھی اپنے اندر محفوظ رکھتا ہے جنہیں ہم سمجھتے تو ہیں یا بہت سے ایسے سوال جن کے جواب ہمارے پاس پہلے سے موجود ہوتے ہیں مگر ہم پھر بھی وہ دوسروں سے کرتے ہیں تاکہ اپنے ذہن میں موجود خیالات کی تصدیق ہوسکے۔ ایسے ہی کچھ نفسیاتی حقائق کا تذکرہ آپ کی دلچسپی کیلئے پیش ہے جنہیں آپ کا ذہن سمجھتا تو ہے تاہم خود آپ کو ہی ان کا ادراک نہیں ہے۔اگر آپ سے کہا جائے کہ آپ اپنے بہترین دوست سے جان چھڑا لیں تو شائد آپ کو بے حد برا لگے لیکن بعض اوقات زندگی میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو بظاہر ہمیں جان سے پیارے ہوتے ہیں لیکن ان کی موجودگی ہی ہماری زندگی میں آگے بڑھنے کی راہ میں ناسور کا کام کرتی ہے۔جب کوئی فرد کسی سے آئی لو یو کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے اس شخص کو اسی حالت میں پسند کیا ہے اور وہ اس میں تبدیلیوں کا ہرگز ہرگز بھی خواہشمند نہیں ہے۔ جذبات کو پہنچنے والی چوٹ صرف دس سے بیس منٹ کے بیچ درد دیتی ہے، اس کے بعد باقی رہ جانے والا احساس دراصل ہمارے اپنے دماغ کا قصور ہوتا ہے جو اس درد دینے والے واقعے کو بار بار دوہراتا اور خود کو دکھی کرتا ہے۔اگر آپ کے تعلق میں ہر بار آپ کا ساتھی ہی معافی مانگتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر بار وہی غلط ہوتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کے اور اپنے بیچ کے تعلق کو اپنی انا اور خودداری سے کہیں زیادہ اہم سمجھتا ہو۔کچھ لوگ خوش ہونے سے ڈرتے ہیں کیونکہ انہیں وہم ہوتا ہے کہ اگر وہ خوش ہوئے تو کوئی المیہ ہوجائے گا۔ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جسے کریپو فوبیا کہتے ہیں۔اگر کسی شخص کیلئے اپنے جذبات کو دل ہی میں دبائے رکھا جائے تو اس شخص سے محبت مشکل ہوجاتی ہے۔تنہا رہنا والا ہر شخص سماج سے تنگ نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنا وقت احمقوں کے بیچ بیٹھ کے ضائع نہیں کرنا چاہتا ہے۔
مزید پڑھئے:چین : خطرناک کر تب د کھانے والا امریکی جان کی بازی ہار گیا
زندگی میں دو چیزیں ہی آپ کی شخصیت کو درست طورپر بیان کرتی ہیں۔ ان میں پہلا صبر ہے جب آپ کے پاس کچھ نہیں ہوتا اور آپ صبرکرتے ہیں اور دوسرا آپ کا وہ رویہ ہے جب آپ کے پاس سب کچھ ہوتا ہے اور آپ قناعت کرتے ہیں۔زندگی میں بہترین چیزیں عام طور پر اس وقت ملتی ہیں جب آپ کو ان کی طلب نہیں ہوتی ہے۔وہ لوگ جو کہ دو زبانوں پر عبور رکھتے ہیں، ممکنہ طور پر اپنی شخصیت اور سوچ بھی زبان بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلتے ہوں۔انسانی دماغ محفوظ شدہ یادداشتوں کو بار بار اس خواہش کے ساتھ دوہراتا ہے کہ شائد یہ سب کچھ دوبارہ ہوسکے۔