اسلام آباد (نیوز ڈیسک )ماں اور بچے کے بیچ کا تعلق انمول تو ہوتا ہے تاہم اس کے قائم ہونے پر ماں کیلئے دیگر تمام اقسام کے تعلقات سے انصاف کرنا بے حد مشکل ہوجاتا ہے۔ طبیعت کی خرابی، نئی نئی ذمہ داریوں کا بوجھ، اعصابی تناو¿، ننھے مہمان کو دیکھنے کی خاطر گھر میں مسلسل مہمانوں کی آمد و رفت اور پوسٹ پارٹم ڈپریشن مل جل کے ماو¿ں کیلئے اس قدر گھمبیر صورتحال پیدا کردیتے ہیں کہ وہ اپنی چڑچڑاہٹ، تیزی سے بدلتے مزاج پر قابو رکھنے میں ناکام ہوجاتی ہیں اور دوسروں پر اپنا غصہ نکال ڈالتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ غصہ اس وقت آتا ہے جب کوئی یہ کہتا ہے کہ ”ارے یہ تو باپ کی کاربن کاپی ہے“۔ بچہ خواہ باپ کی کاربن کاپی ہو یا نہ ہو مگر اس جملے کو سن کے مائیں ضرور اپنا دل جلا کے ”کاربن “ کرلیتی ہیں۔ اس حوالے سے امیلی جان کلارک جو کہ ماں اور بچے کے موضوع پر مہارت رکھتی ہیں، چند خاص تجاویز دیتی ہیں، جن پر عمل درآمد سے کسی بھی فرد کیلئے نئی نئی ماں بننے والی عورت کو غصہ دلانے سے بچا رہنا ممکن ہوسکتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد خواہ آپ کے دل میں بچے کو دیکھنے کے سوا اور کوئی خواہش بھی نہ ہو تو بھی بچے کے ساتھ ساتھ ماں کیلئے کوئی تحفہ لے جانا نہ بھولیں۔ اس طرح انہیں احساس ہوگا کہ ان کی بھی کوئی اہمیت ہے۔ اگر آپ کا بجٹ اس کی اجازت نہیں دیتا ہے تو ایسے میں صرف ایک دو چاکلیٹس بھی بہترین تحفہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ ابتدائی کچھ دن تک یہ سوچ کے ہرگز اطلاع دیئے بغیر مت جائیں کہ چونکہ وہ ابھی گھر پر آرام کررہی ہوں گی ، اس لئے اطلاع دینے کی ضرورت نہیں۔اس مدت میں بدلتے مزاج کی وجہ سے خواتین عین ممکن ہے کہ اچانک مہمانوں کو دیکھ کے گھبرا جائیں یا پھر وہ بچے کے سوا کسی تیسرے فرد کے ساتھ وقت گزارنے کیلئے ذہنی طور پر تیار نہ ہوں۔تحفہ دلوں سے نفرتوں کو کم کرتا ہے، اس فلسفے کو ماو¿ں سے زیادہ کوئی نہیں سمجھ سکتا، اس لئے تحفے کا اہتمام ضرور کریں۔ زیادہ بہتر ہوگا کہ اگر بچے کو تحفے کے بجائے نقد جبکہ ماں کے لئے تحفہ خریدا جائے۔
مزید پڑھئے:مشہور زمانہ بچہ جس کو آ پ سب کی مدد کی ضرورت ہے
اس طرں ماں کو اپنی اہمیت کا بھی احساس ہوگا۔ بچے کو ملنے والی رقم سے وہ اپنی ضرورت کے مطابق کچھ خرید سکے گی۔ اس موقع پر والدین خود بھی بچے کے لئے بے تحاشہ خریداری کرتے ہیں، اس لئے عام طور پر بچوں کی ضرورت کا سب ہی سامان پہلے سے موجود ہوتا ہے ایسے میں نقد دینے سے وہ اپنی کوئی اور ضرورت بھی پوری کرنے کے قابل ہوں گے۔مائیں ، بچوں کی صحت کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ حساس ہورہی ہوتی ہیں،اس لئے بہتر یہی ہے کہ حفظان صحت کے اصولوں پر عمل درآمد کا خاص خیال رکھیں، بچے کے قریب چھینکنے ، کھانسنے سے پرہیز کریں، اسے ہاتھ دھو کے گود میں لیں، بہت زیادہ بوسہ دینے یا چھونے سے اجتناب کریں وغیرہ وغیرہ۔آج کے دور میں ماو¿ں کی اکثریت اس تجربے کے حوالے سے انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع سے معلومات حاصل کرتی ہے، ایسے میں اگر آپ کے پاس بھی کوئی مفید مشورہ ہے تو اسے ماو¿ں کو دینے کے معاملے میں احتیاط برتیں۔ یہ نصیحت محسوس نہ ہو بلکہ یونہی سرسری سی گفتگو میں زیر بحث آنے والا کوئی نکتہ محسوس ہو۔ماو¿ں کے سامنے یہ کہنے کی غلطی ہرگز مت کریں کہ بچہ تو بالکل باپ پر گیا ہے۔ چند دن کے بچے کے نقوش تبدیل ہوتے دکھائی دیتے ہیں، ایسے میں یہ جملہ ماو¿ں کا دل دکھا دیتا ہے، اس سے یہ احساس پیدا ہوتا کہ اس بچے کا اس مرد سے تو تعلق ہے جس کی بدولت وہ ماں بنیں مگر خود ان سے نہیں ہے اور وہ محض اسے اس دنیا میں لانے کا ذریعہ اور اس کی دیکھ بھال پر معمور ایک آیا کی سی حیثیت رکھتی ہیں۔ کچھ رشتے دار، نانی، پھپھو یا خالہ بننے پر اس قدر پرجوش ہوتے ہیں کہ بیس دن کے بچے کے بیس برس کے ہونے پر دیکھے جانے والے خواب بھی دیکھنے لگتے ہیں۔ یعنی کہ اس کی شادی کیریئر وغیرہ۔ یاد رکھیں کہ بچوں کی پیدائش کے فوری بعد مائیں بے تحاشہ جذباتی دور سے گزرتی ہیں اور ایسے وہ بچوں کے معاملے میں دوسروں کی مداخلت کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتی ہیں(کم از کم ابتدائی چند دن) اس لئے اس دور میں انہیں بھڑکانے والی باتون سے پرہیز کریں اور ان ہی میں سے ایک یہ بھی ہے۔