لاس اینجلس (نیوز ڈیسک)پاکستان، بھارت، ایشیا کے چند دیگر ملکوں اور افریقہ کے بیشتر ملکوں میں اب بھی کھانے بنانے کیلئے لکڑی اور اپلے جلا کر یا تیل جلا کر کام چلایا جاتا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ لکڑی، کوئلے اور تیل والے چولہوں پر کھانا بنانا صرف ماحول ہی نہیں بلکہ کھانا بنانے والی خواتین کے لئے بھی تباہ کن اثرات کا حامل ہے۔ اہرین کے مطابق اِن چولہوں میں جلنے والی آگ فضا میں ایسے زہریلے سیاہ کاربن ذرات چھوڑتی ہے جو انسانی پھیپھڑوں میں پہنچنے کے بعد جسم سے خارج نہیں ہو پاتے اور جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اِس باعث کئی خواتین بے وقت کی موت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہی بلیک کاربن فضا میں داخل ہو کر ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق اگر تمام چولہوں سے نکلنے والی بلیک کاربن کے حجم کا اندازہ لگایا جائے تو یہ ایک آفت سے کم نہیں ہے۔ ابھی تک اِس بلیک کاربن کے حجم کو ماپا نہیں گیا ہے۔ اسی باعث اب ماحول دوست افراد اور ڈونرز اداروں نے صاف چولہوں کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کا سلسلے شروع کر دیا ہے۔ اِس مناسبت سے ماہرینِ اقتصادیات، سائنسدانوں اور ہیلتھ ایکسپرٹس نے ایک غیرسرکاری تنظیم گولڈ اسٹینڈرڈ فاو¿نڈیشن کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے چولہوں سے بلیک کاربن کے فضا میں شامل ہونے کے عمل کو روکنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ وہ چولہوں کے استعمال کو بہتر بنانے کے حوالے سے مختلف ٹیکنالوجیز کا سہارا لے کر تجربات کا سلسلہ شروع کیے ہوئے ہیں۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں 2.8 بلین لوگوں کا انحصار لکڑیاں جلانے پر ہے۔ اسی تناظر میں خیال کیا گیا ہے کہ زمین کے تمام باسیوں کو ماحول دوست چولہے دینے پر اربوں ڈالر کی لاگت آئے گی۔ گولڈ اسٹینڈرڈ فاو¿نڈیشن کے چیف ٹیکنیکل آفیسر اوون ہیولیٹ کا کہنا ہے کہ سردست ماحول دوست چولہوں کی پالیسی پر بہت سوچ بچار جاری ہے لیکن اِس پر قابو پانے کے لیے کوئی مناسب حکمتِ عملی بظاہر موجود نہیں۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے کیمپس میں بھارتی نڑاد امریکی ماحولیاتی سائنسدان ویربدران رام ناتھن کا کہنا ہے کہ براعظم ایشیا کے بعض حصوں پر تین کلومیٹر لمبی بلیک کاربن کی لہر پیدا ہو گئی ہے اور ان علاقوں میں سورج چندھیا کر رہ گیا ہے۔ رام ناتھن کے مطابق ماحول دوست چولہے کسی حد تک گلوبل وارمنگ میں مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ بھی صاف اور بہتر چولہوں کے ایک پروگرام کی بھرپور تائید کر رہی ہے۔ اِس پروگرام کے تحت دنیا بھر میں کم از کم 227 مختلف پروگرام جاری ہیں اور اِن کے تحت پانچ ملین ماحول دوست چولہے تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ اِس پروگرام کے تحت سن 2020 تک 95 ملین مزید چولہے تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ امکاناً اِس عمل پر 132 بلین ڈالر کی لاگت آ سکتی ہے۔
تیل اور لکڑی والے چولہے صحت کے لیے تباہ کن
9
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں