پشاور( نیوزڈیسک) اقوامِ متحدہ نے ملک میں ”حفاظتی ٹیکوں کے انتظام کے کمزور نظام“ پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ معیاری طرزعمل کو اپناتے ہوئے حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کو بچپن کی بیماریوں کے خلاف مو ثر بنائے۔ گزشتہ سال عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور یونیسیف کے زیرِاہتمام کی جانب سے مشترکہ طور پر کیے گئے ایک سروے حفاظتی ٹیکوں کی فراہمی کے سلسلے میں ہر سطح پر اس کے انتظامات کے مختلف شعبوں میں اہم کمزوریوں کی نشاندہی کی تھی۔ اقوام متحدہ کے ان دونوں اداروں نے اس خلاءسے نمٹنے کے لیے اقدامات کی سفارش کی تھی۔ اس سروے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سطح پر ویکسین کی فراہمی کے مجموعی تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ویکسین کی فراہمی کے مینجمنٹ سسٹم کے بہت سے شعبوں میں بہتری کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں حفاظتی ٹیکوں کے انتظام کو مو¿ثر بنانے کے لیے طے شدہ اصولوں میں سے صرف ایک پر عمل ہوتا ہے۔ سروے کے مطابق تمام سطح پر مطلوبہ معیاری کارکردگی 80 فیصد ہے۔ اس ملک کو حفاظتی ٹیکوں اور تجارتی اشیاءکی درآمد میں 80 فیصد سے زیادہ مطلوبہ معیار کی ضرورت ہے، جبکہ ویکسین کو اسٹور کرنے کے درجہ حرارت، سرد اور خشک اسٹوریج کی استعداد، عمارات، آلات، ٹرانسپورٹ، دیکھ بھال، اسٹاک مینجمنٹ کا انتظام، اور معاون انتظامات جیسے آٹھ مطلوبہ معیارات ہیں جو حفاظتی ٹیکوں کو مو¿ثر بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اداروں کے زیراہتمام کیے گئے اس سروے کا کہنا ہے کہ بہتر اسٹوریج کی استعداد کی وجہ سے ویکسین کی لاگت بڑھ جاتی ہے، جس کی ہر سطح پر ضرورت ہوتی ہے۔ سروے نے حکومت کو سفارش کی ہے کہ ویکسین کے اسٹاک کی نچلی سطح تک معیار کو برقرار رکھا جائے،زیاں کو کم کیا جائے، ویکسین کی ضروریات کا درست اندازہ لگایا جائے اور سامان کی خرابی کو روکا جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ یہ ویکسین بیماریوں کے خلاف مو¿ثر حفاظت کرے گی۔ 2013ءاور 2014ءکے درمیان 22 ٹیموں کی مدد سے 151 ویکسین سائٹس جن میں ایک نیشنل اسٹور، 28 سب نیشنل اسٹورز، 61 تقسیم کی نچلی سطح اور 61 سروس پوائنٹ پر اس سروے کا انعقاد کیا گیا۔ حکومت سے کہا گیا ہے کہ ویکسین مینجمنٹ کے نظام کو مو¿ثر بنایا جائے، خاص طور پر ملک کے دور دراز علاقوں میں۔ اس سروے نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ کولڈ چین سسٹم کی خریداری میں اقوامِ متحدہ کے اداروں کو بھی شامل کیا جائے، تاکہ بین الاقوامی معیار برقرار رکھا جاسکے۔ اس سروے نے ان علاقوں میں شمسی توانائی کے سسٹم کے استعمال کی سفارش بھی کی ہے، جہاں بجلی کی فراہمی مطلوبہ سطح تک نہیں ہے، جس کی وجہ سے حفاظتی ٹیکوں کے لیے کولڈ چین کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ اسی طرح درجہ حرارت کی نگرانی کے لیے ایک نظام بھی ضروری ہے۔ اس سروے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو کولڈ اسٹوریج چین اور تقسیم سے وابستہ ملازمین کو تربیت دینے کی بھی ضرورت ہے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں