نامور کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہا جاتا ہے کہ آصف علی زرداری کے خلاف الیکشن سے بہت پہلے ہی سے ثبوت اکٹھے کئے جا رہے تھے، زرداری صاحب کو بھی ایک ایک اقدام کی خبر تھی، ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ انتخابات میں تاخیر نہ ہونے دی جائے اور نہ ہی ن لیگ کا اتحادی بنا جائے۔
یعنی ایک طرف تاثر دیا جائے کہ وہ ن لیگ کے خلاف ہیں اس لئے ان سے نرم رویہ رکھا جائے اور دوسری طرف انتخابات میں تاخیر اس لئے قبول نہ کی جائے کیونکہ تاخیر کی صورت میں پیپلز پارٹی کو الیکشن سے پہلے ہی احتساب کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ الیکشن تک زرداری صاحب کی حکمت عملی کامیاب رہی کیونکہ کوئی بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں سے بیک وقت لڑائی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کہانی سنانے والے کہتے ہیں کہ جب آصف زرداری اور پیپلز پارٹی دھرنے کے دوران نواز شریف اور ن لیگ کی حکومت بچانے کے لئے تقاریر کر رہے تھے عین اسی وقت آصف زرداری کے خلاف تحقیقات شروع ہو گئیںاور اس بار توجہ اس طرف رکھی گئی کہ منی ٹریل کا پتہ چلایا جائے چنانچہ سندھ کی تمام شوگر ملز کی نگرانی سخت کی گئی اور یہ پتہ چلانے کی کوشش کی گئی کہ زرداری صاحب کے نام کی وصولیاں کون کرتا ہے بالآخر چار ایسے لوگوں کی نشاندہی ہوئی ان چاروں کو اٹھا لیا گیا۔ ان سے اقبالی بیانات لے لئے گئے اور ان سے دستاویزی ثبوت بھی حاصل کر لئے گئے۔ اسی دوران نواز شریف حکومت کے خاتمے کے لئے زرداری صاحب کی ضرورت بھی تھی، زرداری صاحب کو بھی علم ہو گیا کہ ان کے خلاف گھیرا تنگ ہے ایسے میں انہوں نے ن لیگ سے اپنی ناراضی کا بھرپور اظہار شروع کر دیا کیونکہ ن لیگ نے اپنی حکومت بچانے کے بعد سندھ آپریشن کے دوران زرداری صاحب کو تنہا چھوڑ دیا تھا بلکہ کئی وزراء نے تو پیپلز پارٹی کی کرپشن کے خلاف بیانات کا سلسلہ بھی شروع کر دیا تھا۔
دوسری طرف زرداری صاحب کے ساتھی پارٹی کے زوال کی وجہ اپنا فرینڈلی اپوزیشن ہونا قرار دیتے تھے۔ زرداری صاحب نے اپنی ناراضی کا بدلہ لینے اور فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ،ان کا خیال تھا کہ اس موقف کے بعد ان کے خلاف مقدمات اور کارروائیاں بھی رک جائیں گی، مگر ایسا نہ ہوا۔ان کارروائیوں میں آہستگی آتی گئی لیکن یہ ختم نہ ہوئیں۔ دوسری طرف بار بار یہ مشورہ دیا جاتا رہا کہ زرداری صاحب، بلاول کو آگے لائیں اور خود پس منظر میں چلے جائیں لیکن زرداری صاحب یہ شرط ماننے پر کبھی بھی تیار نہ ہوئے اور یوں جو گھیرا الیکشن سے پہلے زرداری کے گرد تنگ ہونا تھا وہ اب ہو رہا ہے۔
زرداری بھی بڑے گھاگ کھلاڑی ہیں کئی سال سے وہ چھپن چھپائی کا کھیل کھیلتے کھلے میدان میں آ گئے ہیں ان کی حکمت عملی ہو گی کہ مقدمات، انکوائریاں اور تفتیش میں ہر ممکن تاخیر کر کے چار ماہ گزار لئے جائیں تاکہ عدالتی اور دوسرے انتظامی عہدوں پر بڑی تبدیلیاں آ جائیں اور حالات شاید زرداری صاحب کے لئے نسبتاً سازگار ہو جائیں۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ سندھ میں کالاباغ ڈیم کے مسئلے پر ردعمل ہو گا تو سیاست گرم ہو جائے گی اور یوں کسی سندھی سیاست دان کے خلاف یکطرفہ کارروائی مشکل ہوتی چلی جائے گی۔
خدا لگتی بات یہ ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف دونوں سیاسی ابہام کے دیوتا ہیں لیکن مقابلہ عمران خان سے آن پڑا جو مشکل سے مشکل اقتصادی معاملہ یا مالی اسکینڈل انتہائی آسان الفاظ میں لوگوں تک پہنچانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔نواز شریف اور زرداری، عمران خان سے تجربے میں کہیں آگے ہیں لیکن فن تقریر کے جدید انداز سے دونوں ہی ناواقف ہیں۔ پارک لین فلیٹس پر نواز شریف اور منی لانڈرنگ اور غیرملکی اثاثوں پر آصف زرداری آج تک واضح لائن نہیں لے سکے۔
سرے محل کے معاملے پر زرداری کا سچ کیا ہے کسی کو وضاحت سے سمجھایا نہیں جا سکا، پارک لین دادا نے پوتوں کو خرید کر دیئے والا موقف، ن لیگ اپنے کارکنوں تک کو نہیں بیچ سکی۔ عمران خان اس حوالے سے یکتا ہے وہ ریحام خان کی کتاب اور سیتا وائٹ جیسے خطرناک مسائل سے جس طرح بچ نکلے ہیں ان کے فن کی داد دیئے بغیر چارہ نہیں مگر نواز شریف اور آصف زرداری ایسے معاملات کو ابہام کا شکار کر کے سمجھتے ہیں کہ مسئلہ قالین کے نیچے دب گیا حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔
جبکہ عمران وہ دھول ہی اڑا دیتے ہیں جس سے قالین پر داغ لگنے کا احتمال ہو۔ فصاحت، بلاغت، اپنی صفائی اور دوسروں کی دھلائی کے معاملے میں عمران نے میڈیا اور سوشل میڈیا میں اپنے سیاسی حریفوں کو پچھاڑ دیا ہے مگر اب جب وہ اقتدار میں ہیں انہیں صرف قول نہیں فعل بھی دکھانا پڑے گا اور اگر وہ کارکردگی نہیں دکھا پاتے تو قول و فعل کا تضاد ہی ان کے زوال کے لئے کافی ہو گا۔ایک طرف تو پروجیکٹ (Decriminilazition of Politices) پر عمل کے تحت متحدہ اور ن لیگ کو اس چھلنی میں سے گزار کر امن پسند بنا دیا گیا ہے اب زرداری صاحب اور پیپلز پارٹی کی باری ہے۔
زرداری صاحب کے پاس ایک طرف سندھ کارڈ ہے جو کالاباغ ڈیم پر سراپا احتجاج ہو گا اور دوسری طرف ان کی ن لیگ سے قربت کا اشارہ ہے جو سب کے لئے سرخ جھنڈی ثابت ہو گا کیونکہ نواز زرداری اتحاد چاہے جتنا بھی کمزور کیوں نہ ہو اس کے اثرات دور تک جائیں گے۔ آصف زرداری نے پہلے 9،10سال جیل بڑی پامردی سے کاٹی، ان کی بہادری کا اقرار تو ان کے نظریاتی مخالف مجید نظامی نے انہیں مردِ حر کہہ کر بھی کیا۔ اب انہیں شوگر ہے، دل کا عارضہ ہے۔
بلڈ پریشر ہے، چلنے میں سہارا لینے کی ضرورت پڑتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اب فوج سے محاذ آرائی چاہتے ہی نہیں۔ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست چھوڑ چکے ہیں مگر ان کے مخالف ان پر اب بھی شک کرتے ہیں انہیں کرپٹ سمجھتے ہیں اور ہر صورت انہیں ان کے انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاست کے شاطر کھلاڑی، زرداری شہ مات سے کیسے بچتے ہیں؟