نامور کالم نگار منیر احمد بلوچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان سے اب تک مختلف شکلوں اور جماعتوں کی حکومتوں میں وزیر اعلیٰ، گورنر اور بڑے بڑے عہدوں کے بل بوتے پر ملنے والے فنڈز انہوں نے ایک ایک کرتے ہوئے ہڑپ کر رکھے ہیں ۔ یہ سلسلہ گزشتہ ڈیڑھ صد ی سے جاری ہے۔ اس وقت ان بلوچ سرداروں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سمندروں کے رستے دوبئی سمیت خلیج کی
مختلف ریاستوں میں کام کاج کیلئے جا نا شروع ہو ئے جہاں پر رہتے ہوئے یہ بلوچ نوجوان جان گئے کہ ان کی بندر گاہوں کی کیا اہمیت ہے اور وہ اس دن کا شدت سے انتظار کر نے لگے جب گوادر بند گاہ مکمل ہونے پر پورے طور پر کام شروع کر دے گی تاکہ وہ واپس وطن آ کر اپنے بہتر روزگار اور ترقی کیلئے اس سے فائدہ اٹھائیں۔ پی پی پی سمیت نواز لیگ اور چند لبرل دانشور اور اینکرز یہ کہتے نہیں تھکتے کہ فوج کی پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان میں خلفشار پیدا ہوا ہے ۔پی پی پی یہ کہتے ہوئے نہ جانے کیوں بھول جاتی ہے کہ 1972 میں اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے مری قبائل کے خلاف فوج کوکیوں بلایا تھا۔پاکستان کی بنیاد رکھے جانے سے قبل ہی مری بگٹی، بزنجو نے ایران سے کہا کہ تار یخی طور پر قلات چونکہ ایران کا حصہ رہا ہے اس لئے ہم آپ کے ساتھ شامل ہونا چا ہتے ہیں لیکن ایرانی قیادت نے ان سب کو بھگا دیا۔ایران سے مایوس ہونے کے بعد مری اور بگٹیوں نے میر غوث بخش بزنجو کو بھارت بھیجا تاکہ وہ سردار پٹیل اور پنڈت نہرو سے مل کر ان سے مدد مانگ سکیں لیکن مولانا ابوالکلام آزاد نے ان کی تجویز کی سخت مخالفت کرتے ہوئے انکار کر دیا۔ یہاں سے مایوس ہونے کے بعد مری اور بگٹی ظاہر شاہ کے پاس گئے کہ ہم آپ کے ساتھ شامل ہو نا چاہتے ہیں
جس پر ظاہر شاہ نے ان کی بھر پور مدد کی لیکن قائد اعظم کے حکم پر پاکستانی فوج نے ان کی مشترکہ بغاوت کو ناکام بنا دیا۔ آج جمہوریت نوازی اور اسلام آباد کے نام سے پنجاب کی حاکمیت کو تسلیم نہ کرنے کے انقلابی نعرے لگانے والے بلوچ سردار بتائیں گے کہ وہ کون سے بلوچ سردار تھے جو انگریز کیپٹن رابرٹ سنڈیمن کی پالکی کو کندھوں پر اٹھا کر دربار میں لائے اور پھر اسی پالکی کو دوبا رہ کندھوں پر اٹھا کر با ہر لائےاور اس دوران
اس انگریز کیپٹن کی پالکی کو کندھا دینے کی کوششوں میں ایک دوسرے کو دھکے دیتے تھے ۔ 1866 ء میں رابرٹ سنڈیمن نے کیپٹن منچن سے چارج لیا تو اس وقت کے مری، بگٹی سردار اس کے حاشیہ نشین تھے اور بگٹی قبیلے کا سردار غلام مرتضیٰ بگٹی اس کے خاص وفاداروں میں شمار کیا جاتا تھا ۔۔۔کس قدر عجیب بات ہے کہ رابرٹ سنڈیمن کی پالکی کو کندھوں پر اٹھانے والوں کی اولادوں کو جنیوا، لندن اور امریکہ میں بھارت کے نوالوں
پر پلتے ہوئے آج بلوچ عوام کے حقوق یاد آ رہے ہیں۔ مری بگٹی سمیت دوسرے بلوچ سردار لارڈ سنڈیمن کے ایک اشارے پر 8دسمبر1876کو اس وقت کے وائسرائے ہند لارڈ ” لٹن ‘‘سے ملنے ننگے پائوں جیکب آباد آئے اوررابرٹ سنڈیمن کے ذریعے ان سرداروں نے جیکب آباد میں جو معاہدہ کیا اس کی چند شقیں براہمداغ بگٹی، ما ما قدیر اور مہران مری سمیت ان کے ٹولے کے دوسرے لوگ ملا حظہ کریں٭ سب بلوچ سردار انگریز
کے دشمن کو اپنا دشمن تصور کرتے ہوئے برطانیہ کی ماتحتی میں کام کریں گے٭ انگریز کی اجازت کے بغیر ریاست کے باہر کوئی خط و کتابت نہیں کریں گے۔ آج انقلابی کہلوانے والے یہ بلوچ سردارگوادر بندر گاہ اور سی پیک پر کام کرنے والے مزدوروں کو قتل کرانے والے ان بگٹی اور مری سرداروں کو یاد کرائے دیتے ہیں جب 6 اگست 1880کو انگریزی دستہ پر کچھ لوگوں نے حملہ کر دیا اس وقت کے مری سردار مہر اﷲ خان مری نے
دو لاکھ روپے تاوان ادا کر کے معا فی نامہ حاصل کیا تھا( مری سردار کا یہ معافی نامہ آج بھی آر کائیو ڈیپارٹمنٹ بلوچستان میں دیکھا جا سکتا ہے)۔ اگر آج ایف سی یا بلوچستان پولیس گوادر پورٹ اورCPEC پر کام کرنے والے مزدوروں پر حملے کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جا ئے تو اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور مسنگ پرسن کا نام دے دیا جاتا ہے۔ گوادر اور سی پیک کی مخالفت کرنے والے براہمداغ اور مہران مری
بھول گئے ہیں کہ ان کے بڑوں نے انگریزی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ستمبر 1879 میں سندھ سے سبی تک 132 میل لمبی ریلوے لائن پاس کھڑے ہو کر 101 دنوں میں مکمل کروائی تھی ۔ انگریز کی ریلوے لائن قبول تھی لیکن پاکستان کی بلوچستان کی گوادر پورٹ قبول نہیں؟ بلوچستان کے غریب کسانوں اور مزدوروں کا ان کی پیدائش سے ہی خون چوسنے والے ان بلوچ سرداروں نے اپنا علیحدہ ٹیکس کا نظام ٹھونسا ہوا ہے۔1972 میں ذوالفقار
علی بھٹو کے حکم پر جب بلوچستان کے کسانوں نے”ششک‘‘ کے نام کا ٹیکس بلوچ سرداروں کو دینا بند کر دیا تویہ سردار ان کاشتکاروں کے خلاف ہو گئے کیونکہ ششک کی رو سے سردار کاشتکاروں سے زرعی ٹیکس کا چھٹا حصہ خود وصول کر تا تھا۔ 1972کی ربیع کی فصل پرغریب کسانوں کا ششک دینے سے انکار پر 4 جون 1972کو غریب کسانوں پر بلوچ سرداروں نے اپنے مسلح لشکروں کے ذریعے حملہ کرا دیا ان کے کھیت اور گھر
جلا دیئے گئے ۔گولیوں کی بارش سے کئی کسان زخمی ہوئے اور کریم داد چنال نامی ایک کاشتکار شہید ہو گیا۔ مری اور بگٹی قبیلوں کے ایک ہزار سے زائد مسلح لشکر نے جگہ جگہ کسانوں کو مارنا شروع کر دیا۔مکران، کچھی، راڑہ شم ، چاغی،جھائو، آواران میں غریب کاشتکاروں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے گئے اور آج لندن اور امریکہ بیٹھے ہوئے براہمداغ اور مہران بلوچ سردار الزام لگاتے ہیں کہ گولہ باری سے اتنے بچے اور عورتیں ہلاک ہو گئے ہیں۔
یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ انہوں نے خود” منگوچر ‘‘میں 9 کسانوں سمیت چالیس عورتوں اور بچوں کو ہلاک کیا تھا۔ ان کی تیار فصلوں کو آگ لگا دی تھی اور جھل جھائو میں دل مراد،اسکے بیٹے محمد حسین اور بہو کو قتل کر دیا تھا۔ اخبارات اور ٹی وی چینلزپر انسانی حقوق اور جمہوریت کی باتیں کرنے وا لے یہ سر دار اپنے اپنے علا قوں میں غریب لوگوں کی زندگیاں حرام کئے رکھتے ہیں۔ غریب بلوچ عوام کا خون چوسنے کیلئے ان پر ”بجار، ریز،
ششک، پنچک، وس پنڑ، دھڑ، تنڑیں، گھال اور سنگ ‘‘ جیسے دس قسم کے ظالمانہ ٹیکس لگا دیتے ہیں ۔ اندازہ کیجئے ان کی جمہوریت اور انصاف کا؟ ان کے ہیومن رائٹس کا؟ ان کی بلوچ نوازی کا کہ غریب بلوچ عوام انہیں یہ ٹیکس دینے کے بعد نہ جانے کس طرح زندہ رہتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ غریب بلوچ نوجوان ان سرداروںکی ذاتی فوج میں شامل ہو کر ٹیکس سے بھی بچتے ہیں اور ان کے کہنے پر لوٹ مار اور ملک دشمن سرگرمیوں میں بھی شامل ہو تے ہیں۔
اکبر بگٹی نے جب پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے تو ساتھ ہی افغانستان کے صوبہ ہلمند میں ہزاروں کی تعداد میں مری قبائل کے لوگ پہنچ گئے جنہیں اسلحہ اور تربیت دے کر واپس بلوچستان بھیجا گیا۔ پنج شیر وادی کے قریب جبل السراج اس وقت بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا گڑھ بن چکا ہے جہاں سے بلوچستان میں تخریبی اور دہشت گردی کی کارروائیوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔