کراچی(این این آئی)ڈالر کی قدر میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، انٹربینک ریٹ 286روپے سے تجاوز کرگئے جبکہ اوپن ریٹ 291روپے کی سطح پر آگئے۔چین کی 2ارب ڈالر کے قرضے ری شیڈول کرنے پر رضامندی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے باوجود جمعہ کو بھی معمولی اتار چڑھائو کے بعد ڈالر کی پیش قدمی جاری رہی جس سے ڈالر کے انٹربینک ریٹ 286روپے سے بھی تجاوز کرگئے جبکہ اوپن ریٹ 291روپے کی سطح پر آگئے۔
آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے شرح تبادلہ کو مارکیٹ فورسز پر چھوڑنے اور سٹے بازوں کے محتاط انداز میں مبینہ طور پر متحرک ہونے سے ڈالر کی قدر میں اضافے کا تسلسل جاری رہا۔کاروبار کے اختتام پر انٹربینک مارکیٹ ڈالر کی قدر 1.67روپے کے اضافے سے 286.81روپے کی سطح پر بند ہوئی اور اسی طرح اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر بھی 1.50روپے کے اضافے سے 291روپے کی سطح پر بند ہوئی۔انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے 6ہزار درآمدی کنٹینرز کی مرحلہ وار بنیادوں پر کلیئرنس کا عمل بھی ہے جن کی مطلوبہ ادائیگیوں کے بعد کلیئرنس کی جارہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ سے روپیہ دبائو کی زد میں ہے۔ گذشتہ 4ماہ سے کرنٹ اکانٹ سرپلس رہا جبکہ رواں ماہ کرنٹ اکانٹ دوبارہ خسارے کی جانب گامزن ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمدات پر قدغن ختم کرنا مجبوری بھی تھی اور ملک کے لیے ضرورت بھی، انہی ضروریات کے لیے ڈالر کی ڈیمانڈ مستقل بڑھتی جارہی ہے۔واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے یہ بھی پیشگوئی کی ہے کہ مالی سال 2024 میں 6اعشاریہ 4ارب ڈالر مالیت کے کرنٹ اکانٹ خسارہ ہوگا جو مالی سال 2023 میں 2.5ارب ڈالر رہا ہے۔لہذا آنے والے سالوں میں کرنٹ اکانٹ خسارے میں اضافے کی پیشگوئی سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اگلے پانچ سال کے دوران ڈالر کی ڈیمانڈ اور پرواز جاری رہے گی اور روپیہ بتدریج ڈی ویلیو ہوتا رہے گا۔
انٹربینک مارکیٹ اس وقت بھی مذکورہ سمت پر گامزن ہوتی نظر آرہی ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے مارکیٹ بیسڈ ایکس چینج ریٹ رکھنے کی شرط عائد کر رکھی ہے اور اسی پالیسی پر مارکیٹ میں عمل درآمد نظر آرہا ہے جس سے روپیہ دبا کی زد میں ہے، اورزمبادلہ کی مارکیٹوں میں سپلائی کی نسبت ڈیمانڈ بہت زیادہ ہونے سے بھی ڈالر کی قدر میں اضافہ ہورہا ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے مالی سال 2024 میں اوسطا ڈالر ریٹ 306روپے ہونے کی بھی پیشگوئی کی گئی ہے جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ڈالر کی نسبت روپے کی قدر بتدریج گھٹے گی۔