جمعہ‬‮ ، 27 دسمبر‬‮ 2024 

فیصل آباد میں درجنوں بے نامی اکاؤنٹس کا انکشاف

datetime 17  اپریل‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

فیصل آباد (این این آئی)فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کے مقامی دفتر نے فیصل آباد کے کلاک ٹاور بازار اور دیگر علاقوں میں قائم بینکوں میں درجنوں بے نامی اکاؤنٹس کا انکشاف کیا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے ترجیحی بنیادوں پر بائیومیٹرک کے ذریعے اکاؤنٹس کی تصدیق کی درخواست بھی کی ۔ذرائع نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کو درخواست دینے کا فیصلہ شہیر ٹیکسٹائل کیس میں

تحقیقات کے دوران بینکوں کا کردار سامنے آنے کے بعد کیا گیا۔14 مارچ کو ایف بی آر نے 20 سے زائد افراد کے خلاف ٹیکس چوری کا مقدمہ درج کیا تھا جس میں 2 بینک منیجر بھی شامل تھے۔ایف بی آر نے 21 کروڑ 20 لاکھ روپے کے ٹیکس فراڈ کے الزام میں 9 مشتبہ ملزمان کو بھی گرفتار کیا تھا۔تفتیش کے دوران انکشاف سامنے آیا کہ بے نامی اکاؤنٹس محمد وسیم، یاسر مقبول، محمد عثمان او بابر علی کے نام سے نجی بینکوں کی شاخوں میں مونٹگمری بازار، باوانا بازار، لیاقت ٹاؤن، عبداللہ پور، گلبرگ کالونی، کارخانہ بازار، پیپلزکالونی اور سوتر منڈی میں کھولے گئے تھے۔یہ اکاؤنٹس سپلائرز کو سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی سیکشن 73 کی تعمیل دکھانے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے استعمال ہوئے۔ذرائع کے مطابق بینامی اکاؤنٹس کے ذریعے کروڑوں روپے کے کاروبار کا طریقہ کلاک ٹاور کے بازاروں میں نیا نہیں ہے جسے اس ضلع کا تجارتی مرکز سمجھا جاتا ہے جو پاکستان کا ٹیکسٹائل دارالحکومت کہلاتا ہے۔بے نامی اکاؤنٹس کے ذریعے کاروبار کرنے والے افراد کے طریقہ کار سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ان میں سے ایک بڑی اکثریت اکاؤنٹس کے لیے ٹی بوائے، ڈرائیور اور دیگر ملازمین کواستعمال کرتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ کئی مرتبہ گھر بیٹھے ماہانہ خطیر رقم کمانے سے متعلق اشتہارات بھی میڈیا میں گردش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ذرائع نے کہا کہ ایسے افراد کے شناختی کارڈ بے نامی اکاؤنٹس کے لیے استعمال ہوتے تھے اور اکاؤنٹ ہولڈرز کے دستخط بینک حکام کے ساتھ قانونی سہولت کے ذریعے تبدیل کیے گئے تھے۔اسٹیٹ بینک کو لکھے گئے خط میں ایف بی آر نے کہا کہ ڈائریکٹر آف انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن فیصل آباد کی جانب سے اسی طرح کی کارروائیوں میں ایک درجن سے زائد بینک اکاؤنٹس ایسے پائے گئے سیلز ایکٹ

1990 کے سیکشن 73 کے تعمیل ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔خط میں کہا گیا کہ ان میں سے اکثر اکاؤنٹس ٹیکس فراڈ کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں جو کلاک ٹاور کے علاقے میں 8 بازاروں میں قائم مختلف بینکوں میں موجود ہیں۔ایف بی آر نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے بائیومیٹرک تصدیق سے متعلق ہدایات جاری کرنے کی درخواست کی ۔ٹیکس فراڈ سے متعلق تحقیقات کرنے والے

ایک عہدیدار نے بتایا کہ ’ لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ شناختی کارڈ، چیک بک اور ایف بی آر کی جانب سے جاری کیا گیا لاگ اِن پاسورڈ کو کیسے محفوظ رکھا جائے، یہی ٹیکس فراڈ کے بنیادی ہتھیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کو لازمی ایک ایسا طریقہ کار متعاف کروانا چاہیے جس کے تحت کسی فرد یا ادارے کو دوسری مرتبہ ایک ہی نام سے رجسٹر کروانے کی اجازت نہ ہو۔عہدیدار نے کہا کہ جیسے قومی ٹیکس نمبر منفرد

ہے اسی طرح کاروبار کا نام بھی منفرد ہونا چاہیے تاکہ کوئی بھی بینک کو دھوکا دینے، ایف بی آر اور جن کمپنیوں سے کاروبار کررہے ہیں ان سے فراڈ کی کوشش نہ کرسکے۔انہوں نے کہا کہ شہیر ٹیکسٹائل کیس میں فراڈ کرنے والوں کی جانب سے کمپنی کا قومی ٹیکس نمبر استعمال کیا گیا تھا جبکہ وہ کمپنی کاروبار نہیں کررہی تھی تاہم نہ تو مالک نے ایف بی آر ریکارڈ میں کمپنی کو بلاک کروایا اور نہ ہی اس کا آفیشل اکاؤنٹ معطل کیا تھا۔

موضوعات:



کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…