لاہور( این این آئی) ممتاز ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی نے کہا ہے کہ سالانہ ساڑھے4ہزار ارب روپے ٹیکس چوری ہونے یا طاقتور طبقات کو مراعات کی وجہ سے کم وصول ہو رہے ہیں،کرپشن کے پیسے کیلئے پراپرٹی کی خریداری محفوظ پناہ گاہ ہے ،سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی تبدیلی لانے کا ارادہ نہیں رکھتی اور 2023ء میں بھی ہم اسی طرح آئی ایم ایف سے رجوع کر رہے ہوں گے۔
ایک انٹر ویو میں شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ روپے کی قدر گرانے کا مقصد سرجیکل آپریشن ہے لیکن اس آپریشن کے بعد معیشت کی درستگی کیلئے وہ اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تاکہ یہ بیگاڑ دوبارہ پیدا نہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت روپے کی قدر گرا کے توقع کر رہی ہے کہ ہماری برآمدات بڑھیں گی لیکن ایسا نہیں ہوگا ۔ آئی ایم ایف نے ضرور کہا ہے کہ روپے کی قدر گرائیں لیکن حکومت جو کامیابی کے دعوے کررہی ہے اس کے حالیہ چار ماہ کے دوران برا ہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 46فیصد کمی ہوئی ہے ۔ ہم شیطانی چکر میں پھنسے ہوئے ہیں اور روپے کی قدر گرنے کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا ۔ انہوں نے کہا کہ انصاف پر مبنی ٹیکس سٹرکچر تحریک انصاف کے منشور کا بنیادی جزو ہے لیکن کابینہ ، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں کبھی بھی ایسا ٹیکس نظام نہیں لائیں گی جس سے طاقتور طبقات کے مفادات متاثر ہوتے ہوں ۔ آئی ایم ایف ضرور قرضہ دے گا اور ہمارے پاس بھی کوئی آپشن نہیں اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم آئی ایم ایف کی شرائط نہ مانیں ۔ انہوں نے کہا کہ سالانہ ساڑھے 4ہزار ارب روپے ٹیکس چوری یا طاقتور طبقات کو مراعات کی وجہ سے کم وصول ہو رہا ہے ۔ اسی طرح 20ہزار ارب روپے کا کالا دھن ہے اسے سفید کرنے اور فلائٹ آف کیپٹل کیلئے ریاست نے قوانین تو بنا رکھے ہیں لیکن موجودہ حکومت اس کیلئے تیار نہیں ۔ معیشت کو سنبھالنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کے منشور میں بنیادی نکات شامل ہے لیکن گزشتہ یا آج کی کابینہ ، پارلیمنٹ اور اسمبلیاں طاقتور طبقات کے مفادات کیلئے آگے آ جاتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر موجودہ حالات بر قرار رہے تو ہماری سلامتی اور معیشت کو خطرہ رہے گا اور غربت ،بیروزگاری اور احساس محرومی کی وجہ سے انتہائی خطرناک حالات پیدا ہو سکتے ہیں ۔