بدھ‬‮ ، 20 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ملک لوٹنے کے لئے لوٹ سیل لگ گئی

datetime 7  اپریل‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان میں ایک مرتبہ پھر لوٹ سیل لگ گئی ہے اور اگر آپ نے ملک کو لوٹا کھسوٹا ہے یا غیر قانونی اثاثے بنائے ہیں تو صرف ایک سے 5 فیصد تک جرمانہ ادا کریں اور سالہا سال سے اپنی کمائی پر بھاری ٹیکس ادا کرنے والوں جتنے ہی معزز ہوجائیں۔ پاکستان میں اس سے قبل ایسی 9 ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں متعارف کروائی گئی ہیں مگر ان اسکیموں کا زیادہ فائدہ نہیں ہوا ہے اور وہ تمام ہی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کا قبرستان بن گیا ہے تو بے جا نہ ہوگا اور موجودہ اسکیم بھی لگتا ہے اپنا کفن ساتھ ہی لائی ہے۔ آخر یہ اسکیم ہے کیا؟ اس بارے میں اعلان کرتے ہوئے وزیرِاعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اصل ٹیکس گوشوارے جمع کروانے والوں کی تعداد تو 12 لاکھ ہے جن میں سے 5 لاکھ افراد صفر (0) انکم ٹیکس ظاہر کرتے ہیں اور ٹیکس ادا کرنے والوں میں 90 فیصد تنخواہ دار طبقہ ہے چنانچہ پاکستان کے ٹیکس نظام میں ایک بڑی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس پالیسی کے 5 بنیادی نکات ہیں۔ پہلا نکتہ ہر شخص کا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ نمبر ہی اس کا ٹیکس نمبر ہوگا۔ دوسرا نکتہ30 فیصد تک جانے والی انکم ٹیکس شرح کو کم کرتے ہوئے 12 لاکھ روپے سالانہ تک کی آمدنی کو ٹیکس سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ ایک لاکھ سے 12 لاکھ تک سالانہ کمانے والوں کو ٹیکس سے مستثنٰی قرار دیا گیا ہے، جبکہ 12 سے 24 لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر 5 فیصد، 24 سے 48 لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر 10 فیصد اور 48 لاکھ روپے سے زائد تنخواہ پر 15 فیصد ٹیکس ریٹ ہوگا۔ تیسرا نکتہ مقامی اثاثوں پر 5 فیصد جرمانہ ہوگا۔ اس میں بانڈز، سونا اور دیگر جائیداد ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ اس پر ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اس کو سفید کیا جاسکے گا۔ جو اثاثے پاکستان سے باہر ہیں، ان کو بینکاری چینل کے ذریعے وطن واپس لانے پر 2 فیصد جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

اگر 100 ڈالر پاکستان لائے جائیں تو اس پر 2 ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔ غیر ملکی جائیداد جس مالیت کی بھی ہوں گی، ان پر 3 فیصد ٹیکس کی ادائیگی کرنا ہوگی۔ وہ تمام پاکستانی جن کا بیرونِ ملک ڈالر اکاؤنٹ ہے اور پیسے وہاں رکھنا چاہتے ہیں، اس پر 5 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ چوتھا نکتہ پاکستان میں جو بھی جائیداد ہے اس کی اصل قیمت کے بجائے ڈی سی ویلیو ظاہر کی جاتی ہے۔ اس کو ختم کیا جارہا ہے اور جائیداد کے مالکان کو اصل قیمت یعنی مارکیٹ ویلیو کا ایک فیصد ٹیکس جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ صوبائی اور شہری سطح پر جو بھی ٹیکس عائد ہیں، صوبوں کو کہا گیا ہے کہ انہیں ایک فیصد تک لایا جائے۔ اگر کوئی بھی فرد اپنی جائیداد کی قیمت مارکیٹ ویلیو سے کم ظاہر کرے گا تو حکومت کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ صاحبِ جائیداد کی ظاہر کردہ قیمت سے دگنی قیمت کی ادائیگی پر اس کو خریدلے گی۔ وزیرِاعظم کے بقول اس سے جائیداد کی اصل قیمت ظاہر ہوگی۔

پانچواں نکتہ اب حکومت ہر فرد کے لین دین کے ڈیٹا پر نظر رکھ سکے گی۔ بجلی کا بل کتنا ہے، بچوں کی فیس، غیر ملکی سفر کتنا کرتے ہیں، اس سب کو بینچ مارک کیا جاسکتا ہے۔ اس سے واجب الادا ٹیکس کا حساب لگایا جائے گا۔ کسی کے گھر پولیس نہیں بھیجی جائے گی بلکہ ایک سادہ طریقہ کار بنا دیا گیا ہے۔ پہلی جولائی کے بعد 30 جون کے درمیان نوٹسز ارسال کیے جائیں گے اور سزائیں بھی ہوں گی۔

اس ایمنسٹی اسکیم کے ساتھ وزیرِاعظم نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کو قانونی تحفظ دیا جائے گا۔ قومی احتساب بیورو (نیب)، وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) یا وفاقی ادارہ برائے محصولات (ایف بی آر) یا کوئی اور اتھارٹی ان کے خلاف کارروائی نہیں کرسکے گی۔ یہ سہولت ایک مرتبہ کے لیے ہوگی اور ایمنسٹی کے بعد چوری ہوئی تو قانون اپنا راستہ لے گا۔

وزیرِاعظم کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایمنسٹی اسکیم انتہائی سادہ ہے۔ ماضی میں اسکیموں کا مقصد ریونیو کا حصول تھا۔ مگر اب مقصد لوگوں کو ٹیکس دہندہ بنانا ہے۔ وزیرِاعظم کا کہنا ہے کہ سیاست دان اور ان کے بچے اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے اور اس اسکیم کا اثر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور سابق وزیرِاعظم اور ان کے بچوں کے مقدمات پر نہیں پڑے گا۔ مگر جس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

وہ یہ کہ کیا سرکاری ملازمین، عدالتی افسران، فوجی افسران اور ان کے اہلِ خانہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکیں گے یا نہیں۔ وزیرِاعظم کی اعلان کردہ 5 نکاتی اسکیم میں کچھ نکات بہت اچھے شامل کیے گئے ہیں اور ان 5 نکات کا باری باری جائزہ لینا ضروری ہے۔ پریشان کن نکات اسکیم کے دوسرے اور تیسرے نقطے پر اعتراضات ہیں کیوں کہ اس سے ملک کا پیسہ چوری کرنے والوں کو رعائیت دی گئی ہے جبکہ اس کے خلاف ملکی قوانین موجود ہیں۔ ان کو سزا دینے کے بجائے معمولی جرمانے ادا کرنے پر چھوڑا جا رہا ہے۔

اگر حکومت نے ٹیکس چوری کرنے والوں اور اثاثوں کو چھپانے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا تھا تو ان پر اسی شرح سے ٹیکس عائد کیا جاتا جس شرح سے آمدنی پر ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ حکومت کے اس عمل سے ان لوگوں کی اخلاقی شکست ہوگی جو باقاعدہ ایمانداری سے ٹیکس ادا کرتے چلے آئے ہیں اور جنہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود ریاست سے وفاداری اور وطن پرستی کا اظہار کیا ہے۔

بیرونِ ملک یا اندرونِ ملک رکھے گئے اثاثوں پر ٹیکس کی عدم ادائیگی سے ملک میں مالی بحران پیدا ہوئے، ملک میں غربت بڑھی اور ماضی میں ٹیکس کی اصل کے بجائے کم وصولی سے ملکی خزانے پر بوجھ پڑا اور ملک غریب ہوا جس کی وجہ سے کبھی عالمی بینک اور کبھی عالمی مالیاتی ادارے کے سامنے کشکول لے کر بھیک مانگنی پڑی جس سے نہ صرف ملکی خود مختاری متاثر ہوئی بلکہ مالی سطح پر بھی سمجھوتے کرنا پڑے۔

حکومت اگر ٹیکس چوروں کو کسی بھی طرح سے ٹیکس نیٹ میں لانا چاہتی ہے اور جیلوں کو نہیں بھرنا چاہتی تو کم از کم ایسی مالی سزا تو دے جس سے چوروں کو کسی حد تک تو تکلیف ہو۔ مثال کے طور پر غیر ملکی اکاؤنٹ میں پیسے رکھنے پر 5 فیصد کے بجائے ٹیکس ریٹ کے مطابق 15 فیصد تک ٹیکس ہونا چاہیے تھا۔ اسی طرح جائیداد، سونا یا بانڈز ظاہر کرنے پر بھی ٹیکس ریٹ کے مطابق رقم وصول کی جائے اور اس کے اوپر جرمانہ عائد کیا جائے۔

اس کے علاوہ ان افراد کو جو کسی بھی ٹیکس ایمنسٹی سے فائدہ اٹھا چکے ہوں، ان کے ناموں کی فہرست جاری کی جائے تاکہ وہ دوبارہ ایسی کسی اسکیم سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ مثبت نکات ٹیکس اسکیم کے نکات ایک، 4 اور 5 اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ سب سے اہم کارنامہ ہے کہ قومی شناختی کارڈ کو ہی ٹیکس نمبر قرار دے دیا گیا ہے۔ اس سے قومی ٹیکس نمبر حاصل کرنے کا جھنجھٹ تو ختم ہوگا۔

اس کے علاوہ ڈی سی ویلیو کو ختم کرکے جائیداد کی حقیقی قیمت پر ایک فیصد ٹیکس بھی اچھا اقدام ہے۔ اس سے ریونیو کی وصولی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں پراپرٹی کی اصل قیمت ظاہر ہوجائے گی۔ اندازہ ہے کہ پاکستان میں جائیداد کی قیمت میں کئی سو ارب روپے کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی میں جائیداد کی خرید و فروخت سے وابستہ شعبان الٰہی نے ڈی سی ویلیو کو ختم کرنے اور صوبائی اور شہری ٹیکسوں کو ایک فیصد پر لانے کے اقدام کو سراہا ہے۔

شعبان کے مطابق اس وقت حکومتِ سندھ ڈی سی ویلیو پر 6 فیصد ٹیکس وصول کررہی ہے اور ایک کروڑ کی جائیداد 10 لاکھ کی ڈی سی ویلیو پر رجسٹر ہورہی ہے۔ اگر حقیقی قیمت پر ایک فیصد ٹیکس لیا جائے تو صوبائی حکومتیں دگنا سے زائد ٹیکس جمع کرسکیں گی۔ مگر ان کے مطابق حکومت نے جائیداد کی واپس خریداری کا بھارتی ماڈل اپنایا ہے جو بھارت میں بُری طرح ناکام ہوچکا ہے۔

بھارت میں حکومت کو کم قیمت جائیداد بھی بھاری قیمت پر فروخت کردی گئی ہے۔ شعبان کا مزید کہنا ہے کہ حکومت کی بائی بیک یا ظاہر کردہ قیمت سے دگنی قیمت پر خریداری کا عمل شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر اس عمل کو ایف بی آر کی انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا تو اس میں رشوت اور بدعنوانی کا راستہ کھل جائے گا۔ چنانچہ اس عمل کو کسی بھی علاقے میں جائیداد کی خرید و فروخت کے ڈیٹا بیس کے تناظر میں دیکھا جائے اور اگر کوئی جائیداد 10 سے 20 فیصد کم قیمت پر ظاہر کی گئی ہو تو اس کو نوٹس کیا جائے۔

اس عمل کے لیے ایف بی آر حکام کو کھلی چھوٹ نہ دی جائے۔ جہاں تک خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ حکومت پہلی مرتبہ ڈیٹا بیس کا استعمال کرکے ٹیکس نادہندگان کی نشاندہی کرے گی۔ یہ بات غلط ہے۔ اس عمل کا آغاز مشرف دور میں سابق چیئرمین ایف بی آر عبداللہ یوسف کی طرف سے کیا گیا تھا اور اسکولوں سے فیسوں کے ریکارڈ، گاڑیوں کے خریداروں، کریڈٹ کارڈ کے بلز، قیمتی گھروں میں رہائشی اور بیرونِ ملک سفر کرنے والوں کا ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے۔

اسی ڈیٹا بیس کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کے سابقہ دورِ حکومت میں بعض افراد کو ٹیکس وصولی کے نوٹسزز جاری ہوئے تھے مگر نادیدہ قوتوں کی مداخلت پر یہ عمل روک دیا گیا اور اسکیم بھی ناکام ہوگئی تھی۔ اعتراضات موجودہ حکومت اور وزیرِاعظم کی بڑی زیادتی ہے کہ انہوں نے ٹیکس چوروں اور ٹیکس دینے والوں کو مراعات دینے کے لے ایمنسٹی کا سہارا لیا ہے۔ حکومت ٹیکس کے معاملات کو بجٹ میں درست کرتی ہے۔

اگر حکومت نے ٹیکس نظام میں کوئی اصلاح کرنی تھی یا ٹیکس کی شرح کو کم کرنا تھا تو اس کا اعلان چوروں کو دی جانے والی رعائیت میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس اسکیم کو متعارف کروانے کے وقت پر بھی سب سے زیادہ اعتراض کیا جارہا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ایمنسٹی اسکیم کاروباری برادری کے کہنے پر لائی گئی ہے۔ مگر اس سے قبل وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے جب ایمنسٹی کا مطالبہ کیا جاتا تھا تو ان کی طرف سے ایمنسٹی لانے کی مخالفت کی جاتی تھی اور کہا جاتا تھا کہ ٹیکس چوروں کو پکڑنے کا وقت آگیا ہے۔

اور کسی کو کوئی رعائیت نہیں دی جائے گی۔ مگر یہ تبدیلی نواز لیگ کے موقف کی نفی ہے۔ دوسرا سب سے بڑا اعتراض حکومت کی مدت کے حوالے سے ہے۔ اب جب کہ حکومت کے خاتمے اور انتخابات کے انعقاد میں چند ماہ رہ گئے ہیں تو کیوں اتنی بڑی ٹیکس اسکیم متعارف کروائی گئی ہے؟ اس اسکیم کا جب 85 دن بعد خاتمہ ہوگا تو اس وقت موجودہ حکومت ختم ہوچکی ہوگی اور عبوری حکومت کام کر رہی ہوگی۔

اور پھر نئی منتخب حکومت برسرِ اقتدار آجائے گی۔ اس صورت میں اس اسکیم کی ناکامی یا کامیابی اور اعلان کردہ نکات پر عملدرآمد ہونے یا نہ ہونے کی سیاسی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے گی؟ اس اسکیم کے بارے میں پاکستان ٹیکس بار کے عبدالقادر میمن کا کہنا تھا کہ ایمنسٹی اسکیم بہت ہی پُر رعائیت ہے جبکہ مشیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل اسکیم کو لوٹ سیل قرار دے چکے ہیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟


سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…