کراچی(آئی این پی) ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان جمیل احمد نے کہا ہے کہ بیرون ملک پاکستانی سالانہ 7ارب ڈالر غیر قانونی طور پرہنڈی کے ذریعے وطن بھیجتے ہیں جس کی روک تھام ضروری ہے۔بیرون ملک سے بینکوں کے ذریعے 2008 تک سالانہ ساڑھے 6 ارب ڈالر پاکستان آتے تھے۔جو اب بڑھ کر تقریبا 20 ارب ڈالر سالانہ ہوچکے ہیں اس طرح اس رقم میں سالانہ 16فیصد اضافہ ہوا ہے جو اطمینان بخش بات ہے
وہ جمعرات کو مقامی ہوٹل میں نیشنل بینک آف پاکستان کی جانب سے پیش کئے جانے والے شارٹ ڈاکو ڈرامہ کی تقریب سے خطاب اور میڈیا سے بات چیت کررہے تھے اس موقع پر نیشنل بینک کے صدر سعید احمد اور ارتضی کاظمی نے بھی خطاب کیا تقریب میں اسٹیٹ بینک کے سینئر افسران عابدقمر،معین الدین،ارشد ستار ،ثمر حسین ودیگر نے شرکت کی۔ ڈپٹی گورنراسٹیٹ بینک نے کہا کہ ملک میں سب سے زیادہ رقم کی ترسیل سعودی عرب،متحدہ وعرب امارات ،امریکہ،برطانیہ ودیگر 4ملکوں سے ہوتی ہے اور 86فیصد ہے۔ ان ملکوں سے آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹس کا خسارہ کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں زیادہ سے زیادہ رقم قانونی طریقے سے بینکوں کے ذریعے بھیجی جائے۔تاہم اس کے لیے بینکوں کی بھی ذمہ داری ہے ہے کہ صارف کواچھے ریٹ دیں اور بروقت ادائیگی کو یقینی بنائے اور فنڈ کی رقم کا تحفظ بھی ضروری ہے اس سلسلے میں مارکیٹنگ کا شعبہ میڈیا کے ذریعے اہم کردار ادا کرسکتا ہے انہوں نے کہا کہ ترسیلات رقم کی جلد منتقلی نے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے اور صارفین کی شکایات کا قانونی ازالہ کیا جائے۔نیشنل بینک کے صدر سعید احمد نے کہا کہ ترسیلات کے حوالے سے بینکوں کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ اس وقت 35 سے 40 فیصد رقومات ھنڈی کے ذریعے وطن آتی ہیں۔
اسے مکمل ختم تو نہیں کیا جاسکتا تاہم اسے کم کر کے 5فیصد کیا جاسکتا ہے ایک سوال پر صدر نیشنل بینک نے کہا کہ جن لوگوں نے ماضی میں ھنڈی کے ذریعے رقم کی ترسیل کی ہے انہیں رعایت یا معافی دینا ایف بی آر کا کام ہے اس طرح ان کے خلاف کارروائی کرنا بھی ایف بی آر اور قانون نافذکرنے والے اداروں کا کام ہے
انہوں نے کہا کہ صارف کی رقم بروقت پہنچانے کے لیے ڈیجیٹل بینکنگ کی زیادہ ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ صارف کی جانب سے بھیجی جانے والی رقم جلد سے جلد وطن پہنچ جائے او ر متعلقہ اکاؤنٹ میں منتقل ہوجائے۔تقریب کے اختتام پر مہمانوں کو نیشنل بینک کی جانب سے شیلڈ بھی پیش کی گئی۔