پشاور(این این آئی)خیبر پختوپختوا کے وزیر خزانہ مظفر سید ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ وفاق نویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کی تشکیل میں غیر سنجیدہ ہے پچھلے سال بھی پرانا ایوارڈ لاگو ہونے کے سبب صوبے کو کھربوں روپے خسارے اور شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے ایک تخمینے کے مطابق نئے این ایف سی پر لیت و لعل کی وجہ سے صوبے کو 20کھرب روپے سے محروم کیا گیا جو ہماری معیشت سے کھلواڑ کے مترادف ہے مرکز سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ڈیڑھ سال کی تاخیر سے این ایف سی کا اجلاس بلانے کے بعد اب وقت گزاری کیلئے اجلاسوں پر اجلاس بلانے لگا ہے جبکہ پرانا ایوارڈ اگلے سال بھی نافذ کرنے کے چکر میں ہے اگر ایسا ہے تو وفاق نئے ایوارڈ کے اعلان تک صوبوں کو خصوصی پیکیج دے ورنہ موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنا صوبوں کے ساتھ بڑا ظلم اور عوام کا معاشی قتل تصور ہو گا
اسلام آباد میں این ایف سی اور ایکنک اجلاسوں کے بعد میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ پہلے کی طرح حالیہ اجلاس کیلئے بھی ہمیں ایجنڈے اور ورکنگ پیپر سے بے خبر رکھا گیا اور ہماری مالی مشکلات زیر بحث لانے کی بجائے نیشنل سیکورٹی فنڈ قائم کرکے تین فیصد وسائل مختص کرنے، آزاد کشمیر و گلگت بلتستان اور فاٹا کیلئے وسائل بڑھانے اور مردم شماری کی تیاریوں کی بات کی گئی حالانکہ انسداد دہشت گردی اور سیکورٹی کیلئے وسائل ایک فیصد سے بڑھا کر کم از کم تین فیصد کرنا ہمارا مطالبہ ہے مرکز کا اولین فرض مستقبل کے فیصلوں سے قبل صوبوں کے نقصانات اور مالی مشکلات کی تلافی ہے ہم نے نئے ایوارڈ کی تشکیل تک وفا ق سے خصوصی پیکیج کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ نیا ایوارڈ بنی اسرائیل کا بچھڑا بنتا جا رہا ہے اور سالوں بعد بھی شاید نتیجہ صفر ہی نکلے ہم نے مرکز پر واضح کیا ہے کہ صوبے میں امن و امان اور قدرتی آفات سے تباہ حال انفراسٹرکچر کے علاوہ لاکھوں افغان مہاجرین اور قبائل ایجنسیوں کے آئی ڈی پیز کے قیام کے سبب صوبے کو درپیش چیلنجوں میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے جس کا ازالہ ہمارے محدود وسائل میں ممکن نہیں اسلئے ناگزیر ہو گیا ہے کہ اگر اٹھارہویں آئینی ترمیم کے مطابق نئے این ایف سی کا اعلان تاخیر کا شکار ہو اور17سال پرانے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کو جاری رکھنا ہو تو کم از کم سیکورٹی صورتحال اور انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے خیبر پختوپختواکو خاطرخواہ پیکیج مہیا کرے حالانکہ وفاق دیگر صوبوں کو گاہے بگاہے فراخدلانہ پیکیج دہتا رہا ہے بصورت دیگر صوبائی حکومت این ایف سی سے متعلق بے فائدہ اجلاسوں کے بائیکاٹ کا آپشن اپنائے گی
انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں صوبائی حکومت اعلیٰ سطح پر وفاق سے ملاقاتوں اور تحریری شکل میں بھی رابطے کرے گی تاکہ نوے فیصد وفاقی محاصل اور فنڈز پر انحصار کرنے والے اس صوبے کی دگرگوں حالت مزید واضح کی جا سکے مظفر سید ایڈوکیٹ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مرکز مالیاتی کمیشن سمیت صوبوں اور عوام کے حقوق کی ادائیگی انکے وسائل اور ضروریات کی بنیاد پر یقینی بنانے کی بجائے ہر معاملے کو مصلحتوں کی بھینٹ چڑھا رہا ہے جو کسی طرح بھی قومی یکجہتی اور ملکی مفاد میں نہیں کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے اور محکموں کی منتقلی کی وجہ سے بھی صوبے پر مالی بوجھ ہزار گنا بڑھ چکا ہے لگتا ہے کہ چاروں صوبوں کے اتفاق رائے کے باوجود مرکز نئے ایوارڈ کیلئے ٹھوس پیشرفت کی بجائے تاخیری حربے جاری رکھے گاحالانکہ مرکز کا اب 42.5فیصد نہیں بلکہ 20فیصد وسائل پر حق بنتا ہے جو صوبے بخوشی دینے کو تیار ہیں جبکہ باقی 80فیصد وسائل صوبوں کو ملنے چاہئیں واضح رہے کہ ساتویں این ایف سی کے تحت مرکز 42.55، پنجاب51.74فیصد، سندھ 24.55فیصد، خیبر پختونخوا 14.62فیصد اور بلوچستان کو 9.09فیصد فنڈز ملتے ہیں ڈیڑھ سال قبل پچھلے این ایف سی اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ صوبائی خودمختاری کے بعد18ویں آئینی ترمیم، نیشنل ایکشن پلان، غیرملکی امداد کے شفاف استعمال کیلئے پائیدار ترقی کے اہداف اور سی پیک کے ممکنہ اثرات کے مطابق ایوارڈ کی تشکیل ہوگی مگر وفاق کی طرف سے کوئی پیشرفت نہ ہو سکی
دوسری طرف وفاق کے اربوں ڈالر غیرملکی قرضے 2008کے مقابلے میں دوچند اور افراط زر میں مسلسل اضافہ ہوا مظفر سید ایڈوکیٹ نے اس بات پر بھی افسوس ظاہر کیا کہ پن بجلی منافع سمیت مرکز کی طرف سے نئے صوبائی بجٹ کیلئے ہمارے گارنٹی شدہ فنڈز 72ارب روپے تاحال پورے ادا نہیں کئے گئے جو ہمارے کل بجٹ کا 80فیصد سے زائد وسائل ہیں تیل و گیس سیس کی مد میں 29ارب روپے اور 1991 کے پانی تقسیم معاہدے کے تحت 119ارب روپے کی ادائیگی بھی باقی ہے انہوں نے واضح کیا کہ صوبے کی مالیاتی حالت کی بہتری کیلئے ٹھوس اور دور رس اقدامات وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکے ہیں صوبے میں بیروزگاری، افغان مہاجرین و آئی ڈی پیز،دہشت گردی اور امن و امان کے مسائل کی وجہ سے غربت، بیروزگاری اور پسماندگی انتہا کو چھونے لگی ہے جبکہ یہاں کے عوام میں احساس محرومی کا گراف بھی 75فیصد سے تجاوز کر گیا جس کا وفاق کو احساس ہونا چاہئے اور اسکی تلافی آئین کے مطابق حقوق کی جلد از جلد ادائیگی سے ہی ممکن ہے ہمارے مالی نقصانات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے دہشت گردی کی مد میں فنڈز کے صرف ایک فیصد کی فراہمی ہماری کمزور معیشت کے ساتھ مذاق اور اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے اس صوبے کا معاشی استحکام پوری قومی ترقی کا ضامن بنے گا۔