کراچی(نیوز ڈیسک)پاکستانی شہری ہر سال کم از کم 300 ارب روپے دھواں بنا کر اڑا دیتے ہیں۔پاکستان میں تمباکو نوشی کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ہر سال شہری 300 ارب روپے کی سیگریٹ پی جاتے ہیں۔سیگریٹ کمپنیوں کے مطابق وہ ہر سال 65 ارب سیگریٹ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں مگر اسٹیٹ بینک کی ایک حالیہ تفتیشی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ کمپنیوں کی حقیقی پیداواری صلاحیت 123 ارب سیگریٹ سالانہ ہے اور اس تعداد کو مختلف وجوہات کی بناء4 پر چھپا کر رکھا جاتا ہے۔اگر 100 ارب سیگریٹوں کی تیاری کی لاگت اوسطاً 3 روپے فی سیگریٹ تصور کی جائے تو ان کی مارکیٹ ویلیو 300 ارب بنتی ہے۔رپورٹ کے مطابق سیگریٹ کمپنیاں ممکنہ طور پر اپنی صلاحیت کو چھپا کر ٹیکس کی ادائیگی سے بچتی ہیں۔گزشتہ 5 سال کے دوران سیگریٹ کی سالانہ پیداوار اوسطاً 65 ارب تصور کی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اگر ایک سیگریٹ 2 روپے کی ہو تو پاکستانی شہری ہر سال 100 سے 120 ارب روپے دھواں بنا کر اڑا دیتے ہیں۔یہاں تک کہ اگر تمام سیگریٹ ملک میں استعمال نہیں بھی ہوتی اور کچھ حصہ برآمد کردیا جاتا ہے تو بھی پاکستانی 300 ارب روپے دھواں بناکر ہر سال اڑا دیتے ہین کیونکہ سیگریٹ کی برآمد کے اعدادوشمار دستیاب نہیں۔تاہم کمپنیوں کی جانب سے مجموعی فروخت کی مالیت صرف 86 ارب روپے پیش کی جاتی ہے۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ 5 سال کے دوران سیگریٹ نوشی کے رجحان میں ہر سال 13 فیصد اوسط اضافہ ہوا اور یہ مستقبل میں بھی برقرار رہنے کا امکان ہے۔