اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سینٹ کی قائمہ کمیٹی تجارت نے افغانستان سے درآمد کیے گئے کوئلے پر زیادہ ٹیکس وصول کرنے پر وزارت تجارت سے جواب طلب کر لیا ہے۔کمیٹی کے رکن عثمان کاکڑ نے قائمہ کمیٹی کو درخواست دی ہے کہ پاکستان میں جو کوئلہ دیگر ممالک سے درآمد ہو رہاہے وہ کراچی کے ذریعے آتا ہے، کراچی میں کوئلہ صرف ایک کمپنی درآمد کر رہی ہے اور اس پر ستر ڈالر فی میٹرک ٹن ٹیکس عائد کیا گیا ہے جبکہ افغانستان سے پینتیس کمپنیوں کے ذریعے کوئلہ درآمد کیا جاتا ہے لیکن اس پرطورخم بارڈر پر85 ڈالر فی میٹرک ٹن ٹیکس عائد کیا گیا ہے اس طرح پندھرہ ڈالر فی میٹرک ٹن کا فرق عائد کیا گیا ہے۔ اس اقدام سے کراچی کی مارکیٹ سستی ہو گئی ہے جبکہ افغانستان سے کوئلہ منگوالے والے درا?مد کنندگا ن کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس حکومتی اقدام سے ملک اور کاروبار کو نقصان ہو رہا ہے، اس کا نوٹس لیا جائے۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے وزارت تجارت کے سیکریٹری سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ متعلقہ حکام سے جلد از جلد اطلاعات حاصل کرکے کمیٹی کو ا?گاہ کریں تاکہ اس مسئلے پر مزید کارروائی کی جا سکے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ملک میں مختلف قوانین رائج ہیں، افغانستان سے کوئلے کی درآمد کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ اس سے درآمد کنندگان کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے بزنس مین کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اگر ملک میں سرمایہ کار اور تاجر فرینڈلی ماحول بنایا جائے تو اس سے سرمایہ کاری ہو گی اور روزگار کے دروازے کھلیں گے۔ اس حوالے سے جب وزارت تجارت کے حکام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ کوئلے کی درا?مد کے مسئلے پر ایف بی آر سے جواب لے کر قائمہ کمیٹی کو بھیجا جائے گا۔