اسلام آباد(نیوزڈیسک )فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے بینکنگ ٹرانزیکشن پر عائد کردہ ود ہولڈنگ ٹیکس کو بے نامی بینک اکاﺅنٹس پکڑنے اور انہیں دستاویزی بنانے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔جس کے لیے بینکوں نے ایف بی آر کے ساتھ تعاون کرنے پر اتفاق کرلیا ہے اور ایف بی آر نے بڑی بڑی ٹرانزیکشن کے بارے میں بینکوں کو معلومات کی فراہمی کے بارے میں اعتماد میں لے لیا ہے، اس کے علاوہ بے نامی ٹرانزیکشن و بے نامی جائیداد کے رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے بے نامی ایکٹ متعارف کرانے کا بھی اصولی فیصلہ کیا ہے جس کے لیے بل کا مسودہ تیار کیا جارہا ہے جو منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بے نامی اکانٹس و جائیداد کے لیے قانون وفاقی بجٹ میں فنانس ایکٹ کے ذریعے لانا تھا تاہم اس بارے میں وزیراعظم نے ہدایت کی تھی کہ صوبوں کو آن بورڈ لے کر مشاورت کے ساتھ قانون کا مسودہ تیار کیا جائے اور اس میں زیادہ جلد بازی نہ کی جائے تاکہ اس قانون کی تیاری میں تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز اور صوبوں کی مشاورت شامل ہو اور جب اسے نافذ کیا جائے تو اس پر موثر عملدرآمد ہوسکے۔ذرائع نے بتایا کہ اب اس قانون کے مسودے کو حتمی شکل دینے کا کام تیزکرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) ذرائع نے بتایا کہ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کے لیے تمام قسم کی بینکنگ ٹرانزیکشن پر بجٹ میں 0.6فیصد قابل ایڈجسٹ ودہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کا بنیادی مقصد بینکوں میں تاجروں، صنعت کاروں اور دیگر امیر ترین لوگوں کی جانب سے اپنے عزیز رشتہ داروں یا ملازمین کے نام پر کھولے جانے والے بے نامی بینک اکانٹس کا سراغ لگانا اور انہیں ڈاکیومنٹڈ بنا کر ملکی اکانومی کا حصہ بنانا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ تاجروں کے ردعمل پرنان فائلرز کے لیے بینکنگ ٹرانزیکشن پرٹیکس کی شرح 0.3 فیصد کرنے پر اتفاق رائے ہوگیا ہے جس کا جلد آرڈیننس بھی جاری ہونے کی توقع ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بینکنگ ٹرانزیکشن پرعائد کردہ ٹیکس کے حوالے سے پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور بینکوں کو اکانٹس سے ہونے والی بڑی ٹرانزیکشن کے بارے میں ایف بی آر کو معلومات فراہم کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور بے نامی اکانٹس کو ڈاکیومنٹڈ بنانے کے حوالے سے بڑی ٹرانزیکشننز کے بارے میں بینک ایف بی آر کو معلومات فراہم کرنے کو تیار ہیں۔بینکوں کی جانب سے فراہم کی جانے والی ان معلومات کی بنیاد پر بے نامی بینک اکانٹس پکڑے جائیں گے اور انہیں ڈاکیومنٹڈ بنایا جائے گا۔ ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ تاجروں و صنعت کاروں کو خدشہ تھا کہ اگر ان کی جانب سے بینکنگ اکانٹس و ٹرانزیکشنز کو اپنے گوشواروں میں ظاہر کیا جائے گا تو اس سے ان کا ٹرن اوور بہت بڑھ جائے گا اور ان کے لیے مسائل پیدا ہوں گے کیونکہ ان کی آمدنی اتنی نہیں ہو گی مگر ٹرن اوور ٹیکس چونکہ پورے ٹرن اوور پر لگے گا تو اس سے ٹرن اوور ٹیکس کی رقم ان کی آمدنی سے بھی بڑھ جائے گی۔جس کے لیے تاجروں کے ساتھ میکنزم طے پاگیا ہے جس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ تاجروں کا ٹرن اوور سیکٹر ٹو سیکٹر کی بنیاد پر طے کرکے اسی حساب سے ٹرن اوور ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ ایف بی آر ذرائع نے بتایا کہ بینکنگ ٹرانزیکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کے بعد تاجروں کے ردعمل کے باعث اب ایف بی آر نے بے نامی بینک اکانٹس و بے نامی جائیداد کے لیے بینکوں سے ہونے والی بڑی ٹرانزیکشن کے بارے میں رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے بے نامی ایکٹ کے نام سے نیا قانون متعارف کرانے کا عمل بھی تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔جس کے لیے وفاقی حکومت، صوبوں سمیت دیگرمتعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی باہمی مشاورت سے جلد ازجلد بے نامی ٹرانزیکشن و بینک اکانٹس اور بے نامی جائیداد کیلئے قانون کا مسودہ تیار کیا جائے گا اور اسے منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیاجائے گا تاکہ پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد یہ جلد ایکٹ آف پارلیمنٹ بن سکے تاکہ ملکی معیشت کو دستاویزی بنانے میں مدد مل سکے۔