لاہور (این این آئی) لاہور ہائیکورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو پولیس سے تعاون کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے زمان پارک آپریشن سے متعلق درخواست نمٹا دی ،عدالت نے ریمارکس دیئے کہ وارنٹ کی تعمیل کرانا بھی قانون کی منشا ہے ،فرض کریں کہ ایک سمن ہے اگر اسکی تعمیل نہیں ہوتی تو ایسا لگتا ہے کہ ریاست کی رٹ نہیں ہے،پولیس قانون کے مطابق اپنی تفتیش کر سکتی ہے،
انوسٹی گیشن والوں کا کام ہے کہ وہ تفتیش کریں اور میں پولیس کے قانونی عمل کو نہیں روک سکتا،قانون میں آپ کے تمام تحفظات کا حل موجود ہے، جو مہذب دنیا میں ہوتا ہے ،آپ سب لوگ بیٹھ کے مسئلے کا حل نکالیں،وارنٹ کی تعمیل ہو گی یا نہیں ہو گی یہ تب فیصلہ ہو گا جب پراسس سرور متعلقہ جگہ پر پہنچے گا، یہ تو نہر سے آگے جا ہی نہیں پا رہے، مہذب قوموں میں ایسا نہیں ہوتا،کنٹینرز لگانا مناسب نہیں یہ ہمیں ایکسپورٹ کے لیے استعمال کرنے چاہیے، وکیل عمران خان نے کہا کہ یہ پولیس والے پوری فوج لیکر ساتھ نہ جائیں ،دو سے تین لوگ جائیں اور اپنی انوسٹی گیشن کر لیں ۔جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا میں انوسٹی گیشن کنٹرول کر سکتا ہوں؟ جبکہ وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ انوسٹی گیشن کسی کی اجازت کے ساتھ مشروط نہیں کی جا سکتی،آئی جی پنجاب نے کہا کہ کسی علاقے کو نو گو ایریا نہیں بننے دیا جائے گا، میرٹ پر تفتیش ہوگی، کسی بے گناہ کو ملوث نہیں کریں گے تاہم میں گرفتاری کے معاملے پر کسی کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا، یہ نہیں ہوگا کہ ہم ملزمان کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں کہ کس کو گرفتار کرنا ہے اور کس کو نہیں۔عدالت عالیہ میں جسٹس طارق سلیم شیخ نے زمان پارک پولیس آپریشن روکنے سمیت دیگر درخواستوں پر سماعت کی ۔انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور ،ایڈوکیٹ جنرل پنجاب شان گل، فواد چوہدری اسد عمر اور عمر ایوب سمیت دیگر کمرہ عدالت میں موجود تھے ۔فواد چوہدری نے جسٹس طارق سلیم کے اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ
پچھلے دو دنوں میں آپ نے پاکستان کو اور لاہور کو بحران سے بچایا ہے، لوگوں کی زندگیاں آپکی مداخلت سے بچی ہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ آئی جی پنجاب نے بھی اچھا کردار ادا کیا۔فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے کل آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب سے ملاقات کی، ہم نے عمران خان کی سکیورٹی پر بات چیت کی، پنجاب حکومت نے کہا ہے کہ ہم عمران خان کو قانون کے مطابق
سکیورٹی دیں گے۔آئی جی پنجاب نے کہا کہ سکیورٹی دینا ہمارا فرض ہے۔فواد چوہدری نے کہا کہ دوسرا معاملہ اتوار کے جلسے کا تھا ہم عدالت کی اتوار کے روز جلسے منسوخ کرنے کے حکم کا احترام کرتے ہیں۔ ہم پیر کے روز لاہور میں جلسہ کریں گے۔ہم ریلی نہیں نکالیں گے، ہم جلسے کے لیے پانچ دن پہلے انتظامیہ کو آگاہ کریں گے، عمران خان کی حفاظتی ضمانت دائر ہو گئی ہے، ہماری استدعا ہے کہ
آئی جی ہمارے کارکنان کو گرفتار نہ کریں۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیئے کہ میں پولیس کو کارروائی سے نہیں روکوں گا۔ جن لوگوں نے زیادتی کی وہ ادھر سے یا دوسری طرف سے ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے ، اب تو کیمرے لگے ہیں چہرہ صاف نظر آ جاتا ہے، پولیس تفتیش کر لیں جس کا قصور ہے اس کو قانون کے مطابق دیکھیں۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ
آپ کی ساری باتوں میں ایک لیگل ایشو ہے۔ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور ٹرائل کورٹ میں ہے۔ اس سٹیج پر ہم کیسے حفاظتی ضمانت سن سکتے ہیں۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان حفاظتی ضمانت کے لیے آپ کے پاس آئیں ۔جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ ہو سکتا ہے وہ کیس میرے پاس نہ بھی آئے۔آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہمارا فیصلہ ہوا ہے کہ تحریک انصاف کا ایک فوکل پرسن ہو گا
ہم نے کہا ہے کہ کسی علاقے کو نو گو ایریا نہیں بننے دیا جائے گا، عدالت نے فواد چوہدری سے مکالمہ کیا کہ اگر آپ لوگوں کو سکیورٹی نہیں ملتی تو آپ آئی جی کو درخواست دیں جو ایک طریقہ کار ہے، اگر آپ مطمئن نہیں ہوتے تو عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔مسائل اس لیے ہو رہے ہیں، ہم قوائد پر نہیں ہیں۔ صرف رولز کو فالو کریں۔ جلسے سے پہلے آپ درخواست دیں گے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ کنٹینرز لگانا مناسب نہیں یہ ہمیں ایکسپورٹ کے لیے استعمال کرنے چاہیے، آپ جو بھی چاہتے ہیں اس کو طریقہ کار کے مطابق کریں اور باقاعدہ درخواست دیں۔دوران سماعت آئی جی پنجاب نے کہا کہ اگر ہمیں سرچ وارنٹ کی تعمیل کرانی ہے تو اس پر بھی عدالت حکم جاری کرے، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے موقف اپنایا کہ پولیس کی قانونی معاملات پورے کرنے کے لیے زمان پارک تک رسائی نہیں ہے، عدالت یہ حکم جاری کر دے تاکہ ہم جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرسکیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ یہ لوگوں کو گرفتار کرنے کے لیے اجازت مانگ رہے ہیں انہوں نے ایک ایف آئی ار 2500لوگوں کے خلاف درج کر دی ہے،ایسے تو یہ پورے لاہور کو اٹھا لیں گے ،یہ پہلے کیمروں سے لوگوں کی تصدیق کریں اور نامزد کریں ۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ آپ نے دو مقدمے درج کیے ہیں جس میں کل 3 ہزار نامعلوم نامزد ہیں ،
یہ بتائیں اس بات کو یقینی کیسے بنائیں گے اس تفتیش میں کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہوگی ۔آئی جی پنجاب نے کہا کہ سرچ وارنٹ آنے کے بعد ہمیں قانونی کارروائی کی اجازت ہونی چاہیے ، اگر سرچ وارنٹ آتاہے تو ہم ان کی کمیٹی سے بات کریں اور انہیں عمل درآمد کی ہدایت کی جائے گی ۔آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ایک واقعہ ہوا ہے جس میں پیٹرول بم چلیں ہیں، کیا ہمیں جائے وقوعہ پر جاکر شواہد اکٹھے کرنے کی اجازت ہے،
کیا ایس ایس پی یا ڈی آئی جی آپریشنز کو جائے وقوعہ پر جانے کی اجازت ہے، عدالت یہ حکم جاری کر دے تاکہ ہم جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر سکیں۔فواد چوہدری نے کہا کہ ہم انہیں اجازت دے دیتے ہیں، جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی، آپ نے دو مقدمے درج کیے ہیں جس میں کل 3 ہزار نامعلوم نامزد ہیں،آپ سب لوگ بیٹھ کے مسئلے کا حل نکالیں۔ انہوں نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں اس بات کو یقینی کیسے بنائیں گے کہ اس تفتیش میں کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہوگی۔
آئی جی پنجاب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ میرٹ پر تفتیش ہوگی، کسی بے گناہ کو ملوث نہیں کریں گے۔ میں گارنٹی دیتا ہوں، انتقامی کارروائی نہیں ہوگی۔ہم جو بھی کریں گے عدالت کو بتائیں گے اور ہم جس کو گرفتار کریں گے انکے ساتھ قانون کی تحت برتائو ہو گا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ یہ اسپیشل کیس ہے تو آپ میرٹ کیسے یقینی بنائیں گے۔ آئی جی نے بتایا کہ میں گرفتاری سے پہلے کسی سے اجازت نہیں لے سکتا
یہ میرا حق ہے لیکن میں یقین دلاتا ہوں کہ کوئی انتقام نہیں ہوگا، یہ اپنا کوئی فوکل پرسن بنا دیں اس سے ڈسکس کرلیں گے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیئے کہ آپ سب لوگ بیٹھ کے مسئلے کا حل نکالیں۔آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم جو بھی کریں گے عدالت کو بتائیں گے انتقامی کاروائی بالکل نہیں ہوگی اور ہم جس کو گرفتار کریں گے ان کے ساتھ قانون کے تحت برتائو ہوگا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ان کو کیسے مطمئن کریں گے اور آپ اس سارے معاملے میں شفافیت کیسے لائیں گے۔آئی جی نے بتایا کہ میں ان سے اجازت نہیں لوں گا کہ فلاں بندے نے پولیس پر پیٹرول بم مارا ہے ہم اسے گرفتار کرنے لگے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ عام تاثر ہے کہ نامعلوم مقدمے میں جس کو مرضی اٹھا لیں۔فواد چوہدری نے کہا کہ ہمارے اوپر روز مقدمات درج ہو رہے ہیں،
ہم اپنی مہم تو دور بلکہ روز مرہ کی زندگی نہیں گزار پا رہے۔ ہم گرفتاری پر آئی جی کے ساتھ بیٹھ کر طے کر لیتے ہیں۔ آئی جی پنجاب نے واضح کہا کہ میں گرفتاری کے معاملے پر کسی کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا، یہ نہیں ہوگا کہ ہم ملزمان کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں کہ کس کو گرفتار کرنا ہے اور کس کو نہیں۔آئی جی پنجاب نے استدعا کی کہ عدالت سے درخواست ہے کہ وارنٹ گرفتاری پر تو کوئی فیصلہ کر دے۔
دوران سماعت ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ آئی جی صاحب کہہ رہے ہیں کہ قانون کو اپنا راستہ بنانا چاہیے۔عدالت نے فواد چوہدری سے مکالمہ کیا کہ عمران خان کی سکیورٹی کے معاملے پر آپ لوگ متعلقہ حکام کو درخواست دے سکتے ہیں، عدالت نے ریمارکیس دیئے کہ فریقین آپس میں بیٹھ کر حل نکالیں، آئی جی پنجاب نے کہا کہ اسلام آباد سے وارنٹ منسوخ کی درخواست خارج ہو چکی ہے،
عدالت اس بارے فیصلہ کر دے۔عدالت نے ریمارکس دے کہ ہمارے پاس یہ کیس نہیں ہے۔فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواستیں دائر کردی ہیں۔عدالت نے کہا کہ اگر لاہور ہائیکورٹ تک رسائی کی اجازت کی درخواست آئے گی تو جائزہ لیاجائے گا۔
عدالت نے کہا کہ قانون میں آپ کے تمام تحفظات کا حل موجود ہے، جو مہذب دنیا میں ہوتا ہے معاملہ عدالت کے سامنے لایا جائے۔وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ دو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوئے ہیں ایک عمران خان اور ایک رانا ثنا اللہ کے خلاف، آئی جی پنجاب یہ بتائیں یہ کیا طریقہ کار رانا ثنا اللہ کے وارنٹ کی تعمیل کیوں نہ ہوئی، اس معاملے میں پولیس کی بدنیتی شامل ہے،
میں یقین دہانی کراتا ہوں عمران خان یہاں پیش ہوں گے۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ فرض کریں کہ ایک سول جج سے سمن آیا ہے تو آپ کیسے اسکی تعمیل کرائیں گے، وکیل عمران خان نے کہا کہ تعمیل کا قانون موجود ہے ۔وارنٹ گرفتاری پر جو ایڈریس لکھا ہوگا تعمیل کنندہ متعلقہ ایڈریس پر جائے گا ،اگر متعلقہ ایڈریس پر ملزم موجود نہیں تو پھر تعمیل کنندہ عدالت کو بتائے گا ۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں اگر تعمیل کنندہ کینال پر پہنچ گیا ہے اور رکاوٹیں کھڑی ہیں تو پھر کیا ہوگا ۔وکیل نے کہا کہ اگر ملزم جان بوجھ کر وارنٹ موصول نہیں کرتا تو پھر عدالت کے پاس اشتہاری قرار دینے کا اختیار موجود ہے ۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ یہ قانون تو تب لاگو ہو گا جب تعمیل کنندہ ملزم کے گھر پہنچے گا یہاں تو صورتحال مختلف ہے ۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ وارنٹ کی تعمیل ہو گی یا نہیں ہو گی یہ تب فیصلہ ہو گا جب پراسس سرور متعلقہ جگہ پر پہنچے گا، یہ تو نہر سے آگے جا ہی نہیں پا رہے، مہذب قوموں میں ایسا نہیں ہوتا۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ تین بجے دوبارہ کیسے سنیں گے۔درخواستوں پر سماعت وقفے کے بعد شروع ہوئی تو عدالت کے روبرو تحریک انصاف اور پنجاب پولیس کے مابین معاہدہ پیش کر دیا گیا۔
پی ٹی آئی اور پولیس کے مابین قانونی معاملات پر ٹی او آرز عدالت میں پیش کیے گئے، صدر لاہور ہائیکورٹ بار اشتیاق اے خان نے ٹی او آر پڑھ کر سنائے۔ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ ہم نے ٹی او آر طے کر لیے ہیں اور معاہدے کے متن کے مطابق پی ٹی آئی نے اتوار کا جلسہ اتوار کے بجائے پیر کو رکھ لیا ہے۔
وکیل اشتیاق اے خان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کا مینار پاکستان پر جلسہ اب پیر کو ہوگا، پی ٹی آئی ریلیوں اور جلسوں سے پہلے انتظامیہ کو آگاہ کرے گی۔عدالت نے ٹی او آرز ڈارفٹ پر اعتراض اٹھا دیا۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ دوبارہ لکھ کر لائیں، ڈرافٹنگ درست نہیں ہے۔وکیل اشتیاق اے خان نے کہا کہ عمران خان نے حفاظتی ضمانت کے لیے عدالت پیش ہونا ہے،
عدالت آئی جی پنجاب کو حکم جاری کرے کہ عمران خان کی پیشی کے حوالے سے مناسب انتظامات کرے۔وکیل عمران خان نے کہا کہ ہمارے درمیان سکیورٹی ، جلسے اور قانونی معاملات کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیئے کہ ٹی او آرز میں الفاظ کا چنائو بہتر کر کے اسے دوبارہ ڈرافٹ کریں، انوسٹی گیشن والوں کا کام ہے کہ وہ تفتیش کریں اور میں پولیس کے قانونی عمل کو نہیں روک سکتا۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان نے حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کی ہے اور ہماری استدعا ہے کہ عمران خان کو لاہور ہائیکورٹ پہنچنے کے لیے پولیس تعاون کرے تاکہ عمران خان اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہو سکیں، عمران خان اس عدالت میں پیش ہونے کے لیے تیار ہیں۔آئی جی پنجاب نے کہا کہ عدالت نے جو ریمارکس دیئے اس کو آڈر کا حصہ بنا دیں، معاہدے کا آخری پیرا عدالتی حکم کا حصہ بنا دیں
میری بس یہی استدعا ہے۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیئے کہ انکی استدعا ابھی یہ ہے کہ انہیں عدالت تک رسائی دی جائے اور عمران خان کی درخواست میں زمان پارک سے لاہور ہائیکورٹ تک گرفتار نہ کرنے کی استدعا ہے۔ عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کو اس پر اعتراض ہے؟۔آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہمیں لیگل پروسیڈنگز جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔ جسٹس طارق سلیم نے ریمارکس دیئے کہ تمام کیسز پر آج ہی فیصلہ کریں گے۔
ایڈوکیٹ جنرل شان گل نے کہا کہ وارنٹ جاری ہوئے ہیں انکی تعمیل ہر صورت ہونی ہے۔عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ ابھی درخواست گزار کی درخواست یہ ہے کہ انہیں ہائیکورٹ آنے تک پولیس تعاون کرے اور سکیورٹی دے کیا آپ اس درخواست کی مخالفت کرتے ہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ معاملہ یہ نہی ہے معاملہ وارنٹ کا ہے جس کی تعمیل ہونی ہے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیئے کہ میں نے وارنٹ کی تعمیل تو نہیں روکی، جس پر ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ لیکن جب پولیس کارروائی رک گئی
تو وارنٹ کی تعمیل کیسے ہوگی۔لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کو ہائیکورٹ تک سکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے عدالت پیش ہونے کی مہلت دے دی جبکہ عمران خان کی زمان پارک سے ہائیکورٹ آنے تک کی درخواست بھی منظور کر لی۔عدالت نے حکم دیا کہ آئی جی پنجاب عمران خان کو لاہور ہائیکورٹ پہنچنے تک سہولت دیں اور 5بجے عمران خان کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کریں گے۔
وقفے کے بعد کیس کی سماعت ایک بار پھر شروع ہوئی تو عدالت نے پولیس کی عمران خان سے تفتیش کرنے کی اجازت کی درخواست منظور کر تے ہوئے کہا کہ پولیس قانون کے مطابق اپنی تفتیش کر سکتی ہے ۔وکیل عمران خان نے کہا کہ یہ پولیس والے پوری فوج لیکر ساتھ نہ جائیں ،دو سے تین لوگ جائیں اور اپنی انوسٹی گیشن کر لیں ۔جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا میں انوسٹی گیشن کنٹرول کر سکتا ہوں؟ ۔وکیل عمران خان نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے بلکہ کہہ رہے ہیں کہ
پولیس اپنے نامزد کردہ افسر ہی انوسٹی گیشن کے لیے بھیجے ۔وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ انوسٹی گیشن کسی کی اجازت کے ساتھ مشروط نہیں کی جا سکتی ۔وکیل عمران خان نے کہا کہ ہم پولیس کو روک نہیں رہے ہم کہہ رہے ہیں کہ قانون کے مطابق انوسٹی گیشن کریں ۔ دو ایف آئی آر میں پولیس انوسٹی گیشن کرنا چاہتی ہے ۔پولیس اپنے نامزد کردہ بندے بھیج دے ہم تعاون کریں گے ۔
دوران سماعت جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ وارنٹ کی تعمیل کرانا بھی قانون کی منشا ہے ۔فرض کریں کہ ایک سمن ہے اگر اسکی تعمیل نہیں ہوتی تو ایسا لگتا ہے کہ ریاست کی رٹ نہیں ہے ۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میری تو پارٹی کا نام ہی تحریک انصاف ہے ،
میں تو 18مارچ کو عدالت پیش ہونے کے لئے تیار تھا مگر یہ چار دن پہلے ہی آئے گئے اور جو فورس کا اٹیک ہوا ہے اس کی تاریخ نہیں ملتی ،یہ پوری فوج کے ساتھ آئے کہ پتہ نہیں کشمیر فتح کرنے آئے ہیں ،ہمارے سارے بنیادی حقوق سلب کیے گئے ۔انہوں نے مجھے اٹھا کر سیدھا بلوچستان لے جانا تھا ،
شہباز گل اور اعظم سواتی کے ساتھ جو ہوا وہ سب کے سامنے ہیں ،یہ میرے ساتھ بھی یہی کرنا چاہتے تھے۔عمران خان عدالت کا بہت شکریہ کہہ کر جانے لگے تو جسٹس طارق سلیم شیخ نے انہیں روک لیا ۔ بعد ازاں عدالت نے زمان پارک آپریشن کی درخواست نمٹا تے ہوئے عمران خان کو پولیس سے تعاون کرنے کی ہدایت کردی۔