منگل‬‮ ، 24 جون‬‮ 2025 

شامی مہاجرین کو پناہ دینے سے گریز،خلیجی و عرب ممالک کو اصل میں خدشہ کیا ہے؟‎

datetime 11  ستمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

امیر خلیجی عرب ریاستیں شامی مہاجرین کو اپنے ہاں قبول نہ کرنے کی وجہ سے پوری دنیا میں ہدفِ تنقید بن رہی ہیں تاہم ان ریاستوں کا بحران زدہ علاقوں سے جانے والے مہاجرین کو پناہ دینے کا ابھی بھی کوئی پروگرام نہیں ہے۔نیوز ایجنسی نے اپنے ایک تازہ جائزے میں لکھا ہے کہ خلیجی تعاون کونسل کی چھ ریاستوں سعودی عرب، عمان، متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین اور قطر میں سے کسی ایک نے بھی مہاجرین سے متعلق اقوام متحدہ کے اُس کنونشن پر دستخط نہیں کیے، جس کے تحت دوسری عالمی جنگ کے بعد سیاسی پناہ کا بین الاقوامی قانون وضع کیا گیا تھا۔تین سالہ شامی بچے ایلان کُردی کی ساحلِ سمندر پر پڑی لاش کی تصویر نے دنیا بھر میں ہمدردی کی ایک لہر پیدا کر دی تھی۔ ایلان کُردی کے والد عبداللہ کُردی نے عرب ملکوں کی مہاجرین کو اپنے ہاں قبول نہ کرنے کی پالیسی کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا:’’مَیں یورپی ملکوں سے نہیں بلکہ عرب حکومتوں سے یہ چاہتا ہوں کہ وہ دیکھیں کہ میرے بچوں کے ساتھ کیا ہوا اور اسے سامنے رکھتے ہوئے وہ ہمارے لوگوں کی مدد کریں۔‘‘عبداللہ کُردی کے مطابق وہ گزشتہ ہفتے سرحد عبور کر کے واپس شام میں داخل ہوا تھا تاکہ چھوٹے ایلان کے ساتھ ساتھ اُس کے بڑے پانچ سالہ بھائی اور اُن کی والدہ کو بھی شامی سرزمین پر سپردِ خاک کر سکے۔خلیجی عرب ریاستوں کا موقف یہ ہے کہ ایک طرح سے وہ شام میں 2011ء میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے اب تک لاکھوں شامیوں کو اپنے ہاں ’پناہ‘ دی ہے، نصف ملین کو سعودی عرب میں اور ایک لاکھ کو متحدہ عرب امارات میں لیکن مہاجرین کے طور پر نہیں بلکہ مہمان مزدوروں کے طور پر، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں اُن کیا قیام عارضی نوعیت کا ہو گا۔ ساتھ ہی شرط یہ ہے کہ وہاں اُنہیں پہلے سے یا تو کوئی ملازمت ملنے کا امکان ہو یا پھر وہ وہاں پہلے سے موجود اپنے خاندان کے کسی فرد کے ہاں قیام کریں۔خلیجی عرب ریاستوں کا یہ بھی اصرار ہے کہ وہ کروڑوں ڈالر کی رقوم امداد کے طور پر دیتے ہیں۔ تاہم ترکِ وطن اور ترقی کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے پیٹر سدرلینڈ کے مطابق اس طرح پیسہ
دے کر خود کو بچا لینا ہرگز اطمینان بخش نہیں ہے۔ اُنہوں نے گزشتہ ہفتے جنیوا میں ایک نیوزکانفرنس میں مزید کہا تھا:’’مہاجرین کو اپنے ہاں قبول کرنا پیسہ دینے سے ایک الگ عمل ہے۔‘‘
خلیجی عرب ریاستوں کو خدشہ ہے کہ مہاجرین اور خصوصاً عرب مہاجرین کو پناہ دینے سے سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ خصوصاً عرب مہاجرین کے حوالے سے انہیں خدشہ ہے کہ یہ خلیجی ملکوں میں مستقل طور پر آباد ہو جائیں گے اور پھر وسیع تر بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے لگیں گے جبکہ مہمان مزدور کے طور پر اُنہیں ایسےحقوق دیے جانے کی کوئیی توقع ہی نہیں کی جاسکتی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کرپٹوکرنسی


وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…