پیر‬‮ ، 21 جولائی‬‮ 2025 

مریم نواز کی تقریر میں عدلیہ پر الزامات، چیف جسٹس کو کاروائی کیلئے خط لکھ دیا گیا

datetime 28  فروری‬‮  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)سابق اٹارنی جنرل اور سینئر وکیل انور منصور خان نے مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز کی سرگودھا جلسے میں کی گئی تقریر پر کارروائی کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو خط لکھ دیا۔اپنے خط میں انور منصور خان نے کہا کہ میرے لیے ایسے خط لکھنا بالکل غیر معمولی ہے لیکن بحیثیت ایک سینئر وکیل 23 فروری کو سرگودھا میں

پیش آنے والے واقعہ کو آپ کے سامنے رکھنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔انہوںنے کہا کہ عدلیہ ہمارا فخر ہے جس کی حفاظت ہم پر لازم ہے، مجھے مریم نواز سے کوئی ذاتی عناد نہیں لیکن سرگودھا میں 23 فروری کو جلسے کے دوران انہوں نے ارادتاً عوام میں سپریم کورٹ اور ججز کے خلاف جذبات بھڑکائے اور بغیر کسی ثبوت کے معزز ججز اور سپریم کورٹ پر بھونڈے الزامات لگائے۔اپنے خط میں انور منصور خان نے کہا کہ مریم نواز نے انتخابات کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کے بینچ کے ارکان جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی کو تنقید کا نشانہ بنایا، دونوں معزز جج صاحبان پر تنقید کرنے کا مقصد انصاف کے عمل پر اثر انداز ہونا اور رکاوٹ ڈالنا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی شدید تنقید کو عدلیہ کی آزادی اور انصاف کے نظام پر حملہ تصور کیا جاتا ہے، چنانچہ مریم نواز کے خلاف اس حوالے سے توہین عدالت کی کاروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔سابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی نواز شریف کے خلاف پاناما کیس میں بینچ کا حصہ تھے۔خط میں انہوں نے مریم نواز کے خطاب کی ویڈیوز کے لنک بھی دیے اور کہا کہ لاکھوں لوگ انہیں سن چکے ہیں اور اسے اب بھی سنا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو مریم نواز کی تقریر کی ساؤنڈ ریکارڈنگ پیمرا سے منگوائی جا سکتی ہے اور آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا آپ ذاتی تنقید کے لیے متعلقہ فرد کے خلاف ’عدالتی اور مجرمانہ توہین‘ کے ذریعے کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔انور منصور خان نے کہا کہ

تقریر میں نامعلوم ذرائع سے لیک ہونے والی آڈیو ریکارڈنگ سے متعلق الزامات بھی لگائے گئے۔انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ کے ججز یا کسی اعلیٰ عدالت کے کسی جج کے خلاف بغیر کسی ثبوت یا دستاویز کے آڈیو لیک ہونے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا اور نہ ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ جج پر اثر انداز ہونے اور دباؤ ڈالنے کی کوشش کی

وجہ سے قابل تشویش بھی ہے جس سے عدلیہ کی آزادی مجروح ہوتی ہے۔انور منصور خان نے کہاکہ سپریم کورٹ آف پاکستان قرار دے چکی ہے کہ کسی بھی غیر قانونی طریقے، جہاں ذریعہ دستیاب نہ ہو، سے لی گئی معلومات کو کسی جج تو دور کسی فرد کے خلاف بھی بطور ثبوت استعمال نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ سر عام بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے الزامات لگانا اور آئین کے آرٹیکل 209 پر عمل نہ کرنا

اس سے بھی بدتر ہے کہ اسے آرٹیکل 204 کے مطابق بغیر کسی کارروائی کے جاری رہنے دیا جائے۔سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اب یہ عدالت پر منحصر ہے کہ معزز عدالت کے سامنے رکھے گئے حقائق اور عدلیہ کی ساکھ، عزت، آزادی اور اعتماد کے تحفظ کے لیے آئین و قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



نیند کا ثواب


’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…