اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے از خود نوٹس کی سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے ازخود نوٹس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکر کی درخواست ہیں، ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن
اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا، کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا ہے جو فریق نہیں ہیں،آڈیو سامنے آئی ہیں جس میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184(3)کا نہیں بنتا جبکہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ ہمارے سامنے 3 معاملات ہیں، دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے، ہمارے سامنے ہائیکورٹ کا 10 فروری کا آرڈر تھا، ہمارے سامنے بہت سے عوامل تھے،سیکشن 57 انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ہے، بہت سے نئے نکات آ گئے ہیں جن کی تشریح ضروری ہے، سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، چاہتے ہیں انتخابات وقت پر ہوں۔ جمعرات کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔سپریم کورٹ کے بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے تین معاملات کو سننا ہے، صدر پاکستان نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا، عدالت کے پاس وقت کم ہے، الیکشن کے حوالے سے وقت جا رہا ہے۔دوران سماعت بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم صدر پاکستان سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت نے انتخابات کا اعلان کیا، وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہماری درخواست زیر التوا ہے اسے بھی ساتھ سنا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے 3 معاملات ہیں، دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے، ہمارے سامنے ہائیکورٹ کا 10 فروری کا آرڈر تھا،
ہمارے سامنے بہت سے عوامل تھے۔اس دوران اٹارنی جنرل نے کیس کی تیاری کیلئے وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو جمعہ کیلئے تیاری مشکل ہوپائے گی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جمعہ کو ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے،کیس کی تفصیلی سماعت پیر کو کریں گے، ہمارے سامنے بہت سے فیکٹرز تھے جن کی بنیاد پر از خود نوٹس لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ میں لمبی کارروائی چل رہی ہے، وقت گزرتا جار ہا ہے، اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ از خود نوٹس پر میرے تحفظات ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ از خود نوٹس بعد میں لیا، پہلے اسپیکرز کی درخواستیں دائر ہوئیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بینچ میں تھے جس میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ بہت سی وجوہات تھیں
جن کی وجہ سے ازخود نوٹس لیا گیا، آئین انتخابات کا وقت بتاتا ہے جو ختم ہورہا ہے، ہائی کورٹ کا فورم بائی پاس کیا جا سکتا ہے اگر ایمرجنسی ہو، سپریم کورٹ کے لیے آسان تھا کہ دو دائر درخواستیں مقرر کر دیتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ سیکشن 57 انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ہے، بہت سے نئے نکات آ گئے ہیں جن کی تشریح ضروری ہے، سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے،
ہم نے آئین کو دیکھنا ہے کہ اس پر عمل درآمد ہورہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ آین کی خلاف وزری کسی صورت برداشت نہیں کرے گا، دو رخواستیں ہیں وہ اب آ وٹ ڈیٹڈ ہوگئی ہیں، اس پر وضاحت کی ضرورت ہے، 20فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کچھ سوال دونوں اسمبلی کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں، سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے،
انتخابات کا ایشو وضاحت طلب ہے، ہم ارادہ رکھتے ہیں آپ سب کو سنیں، ہم نے آئندہ ہفتے کا شیڈول منسوخ کیا ہے تاکہ یہ کیس چلا سکیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں، یہ ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکر کی درخواست ہیں، یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا، اس کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا ہے جو کہ فریق نہیں ہیں۔دوران سماعت وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ازخود نوٹس میں اگر فیصلہ انتخابات کرانے کا آتا ہے تو سب کو فائدہ ہوگا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو سب سیاسی جماعتیں فائدہ حاصل کرینگی، شعیب شاہی نے کہا کہ یہ ٹائم بانڈ کیس ہے اس میں انتخابات کرانے کا ایشو ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 224 کہتا ہے 90روز میں انتخابات ہوں گے، وقت جلدی سے گزر رہا ہے، ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔نجی ٹی وی کے مطابق دوران سماعت جسٹس جمال جان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آڈیو سامنے آئی ہیں جس میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184(3) کا نہیں بنتا۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم نے اس کیس میں آئینی شق پر بات کر رہے ہیں، پہلا سوال یہ ہوگا کہ اسمبلی آئین کے تحت تحلیل ہوئی یا نہیں، دوسرا سوال یہ ہے کہ اسمبلی کو بھی 184(3) میں دیکھنا چاہیے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرے خیال میں تمام سیاسی جماعتوں کو سننا چاہیے، جمہوریت میں سیاسی جماعتیں حکومت بناتی ہیں۔دوران سماعت وکیل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں اور حکومت کو قانونی موقف دینا چاہیے، اس لیے بلایا جاسکتا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ ایک اہم ایشو ہے،اس کا مقصد شفافیت اور عدالتوں پر اعتماد کی بات ہے۔وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ ہائی کورٹ کا ریکارڈ منگوایا جائے،
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو بھی سنا جائے، وکیل عابد زبیری نے کہا کہ صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ جاری کی ہے، ہم نوٹس کے علاہ کچھ نہیں کریں گے۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ جب اسپیکرز نے درخواست دی اس وقت صدر اور الیکشن کمیشن میں خط وکتابت شروع ہوئی، درخواستوں میں گورنرز کی جانب سیالیکشن اعلان نہ کرنے کو چیلنج کیا گیا۔اس دوران سپریم کورٹ نے صدر پاکستان حکومت پاکستان الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کردیا، سپریم کورٹ کی جانب سے گورنر پنجاب، گورنر خیبر پختونخوا اور چیف سیکریٹری کو بھی نوٹس جاری کردیئے۔عدالت نے کہا کہ صدر مملکت، گورنرز کے پرنسپل سیکریٹری ریکارڈ پیش کریں،
عدالت نے پاکستان بار کونسل، صدر سپریم کورٹ بار سمیت چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل کو بھی نوٹس جاری کردئیے، عدالت نے کہا کہ پی ڈی ایم پیپلز پارٹی کو نوٹس جاری عدالت کی معاونت کریں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا ہائی کورٹ بار کی درخواست کے لیے منظوری ہے، شعیب شاہین نے کہا کہ دس ایک سے قرارداد منظور کی ہے، الیکشن کا حکم کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں ہوگا، یہ درخواست کسی کے خلاف نہیں۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فریقین کو آنے دیں اور بتانے دیں کہ الیکشن چاہتے ہیں یا نہیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہاں ایشو ہے کہ اسمبلی کی تحلیل اور عام انتخابات کیسے ہوں گے، اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس
میں پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کو نوٹس کیا گیا تھا، موجودہ کیس اسپیکر رولنگ سے مختلف ہے۔وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ ہائیکورٹ کا ریکارڈ منگوایا جائے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو بھی سنا جائے، وکیل عابد زبیری نے کہا کہ صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ جاری کی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہم نوٹس کے علاہ کچھ نہیں کریں گے، اس دوران عدالت عظمی نے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس کردیا۔دور ان سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا بھی ازخود نوٹس لیا جائے۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا اسمبلیاں کسی کی ڈکٹیشن پر ختم ہوسکتی ہیں؟نمائندے 5 سال کیلئے منتخب ہوتے ہیں تو کسی شخص کی ہدایت پر اسمبلی تحلیل کیسے ہوسکتی ہے۔مزید سماعت جمعہ کی صبح 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔