اسلام آباد(نیوزڈیسک) دس سال پہلے کراچی کی شاہراہ فیصل پر سرفراز مرچنٹ نام کا فرنیچر کا ایک تاجر ہوتا تھا‘ یہ ایک عام درمیانے درجے کا بزنس مین تھا‘ یہ گم نام بھی تھا لیکن پھر اس نے اداکارہ نیلی کے ساتھ شادی کر لی اور یوں اس کا نام اخبارات میں آنے لگا‘ نیلی کی وجہ سے اس کا کراچی کے ایک ڈان سے جھگڑا ہوا اور یہ ملک سے فرار ہو گیا‘ یہ دوبئی میں سیٹل ہو گیا‘ 2008ءمیں حارث سٹیل مل اور بینک آف پنجاب کا ایشو سامنے آیا تو اس میں سرفراز مرچنٹ کا نام بھی آ گیا‘ اس پر الزام تھا‘ معروف اینکرپرسن اورکالم نویس جاویدچوہدری نے اپنے کالم میں انکشاف کیاہے کہ سرفرازمرچنٹ نے ججوں کے نام پر حارث سٹیل مل کے مالک شیخ افضل سے دوکروڑ اسی لاکھ روپے لئے‘ عدالتیں ایکٹو ہوئیں‘ نیب اور ایف آئی اے آگے بڑھی اور سرفراز مرچنٹ کو انٹرپول کے ذریعے پاکستان لانے کی کوششیں شروع ہوگئیں لیکن کوششیں کامیاب نہ ہوئیں‘ کیوں؟ کیونکہ ڈاکٹر عاصم سرفراز مرچنٹ کے دوست تھے‘ سرفراز مرچنٹ اس وقت تک اتنا امیر ہو چکا تھا کہ وہ پارک لین لندن کے انتہائی مہنگے ہوٹل میریٹ میں مسلسل گیارہ سال مقیم رہا‘ وہ ہوٹل کے سوئٹ میں رہتا تھا‘ ڈاکٹر عاصم جب بھی لندن جاتے تھے‘ یہ اسی ہوٹل میں سرفراز مرچنٹ سے ملتے تھے۔سرفراز مرچنٹ کا دوسرا دوست انیس ایڈووکیٹ تھا‘ انیس ایڈووکیٹ ایم کیو ایم کے رابطہ کمیٹی کے ممبر رہے ہیں‘ یہ الطاف حسین کے قریبی ترین دوستوں میں بھی شمار ہوتے ہیں‘ لندن میں الطاف حسین کے خلاف جتنے مقدمات چل رہے ہیں‘ ان میں انیس ایڈووکیٹ بھی دوسرے ملزمان محمد انور ‘ افتخار قریشی‘ سرفراز احمداور طارق میر کے ساتھ زیر تفتیش ہیں‘ لندن میں 16 ستمبر 2010ءکو جب ڈاکٹر عمران فاروق قتل ہوئے تو اس دن بھی ڈاکٹر عاصم‘ انیس ایڈووکیٹ اور سرفراز مرچنٹ نے میریٹ ہوٹل پارک لین میں اکٹھے لنچ کیا۔