لاہور ( این این آئی) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آج جمعہ سے اسلام آباد کی طرف حکومت مخالف لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے لیکن یہ کوئی پہلا احتجاج نہیں، اس سے قبل نواز شریف، بینظیر بھٹو، قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو، مریم نواز، ڈاکٹر طاہر القادر بھی لانگ مارچ کر چکے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق انگ مارچ کی سیاست کی شروعات 1992ء سے کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔نواز شریف مسند پر تھے اور بے نظیر بھٹو سڑکوں پر نکلیں تھیں، انہوں نے راولپنڈی کے لیاقت باغ پر پڑا ڈالا، تاہم مقصد کا حصول ممکن نہ ہوسکا۔ 1993ء کا لانگ مارچ آغاز پر ہی تھا کہ نوازشریف حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کو بابائے تحریک کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو کے دورِ اقتدار میں لانگ مارچ اور ٹرین مارچ کیے۔چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی معزولی پر تین احتجاجی تحاریک ہوئیں اور لانگ مارچ بھی ہوا جس کی قیادت نوازشریف نے کی۔ یہ لانگ مارچ کامونکی پہنچنے پر مقصد کے حصول پر اختتام کو پہنچا، یہ واحد لانگ مارچ تھا جسے کامیاب کہا جا سکتا ہے۔2013ء میں علامہ طاہر القادری نے اسلام آباد کا رخ کیا، وہاں دھرنا دیا اور چوہدری برادران کے مذاکرات کے بعد واپسی ہوئی۔2014ء میں تحریک انصاف اور طاہر القادری کا مشترکہ لانگ مارچ ہوا، جہاں سے ڈی چوک پاکستانی سیاست کا مرکز بنا، طاہر القادری تو واپس چلے گئے لیکن کپتان 126دن ڈی چوک کے مکین رہے، لیکن ملکی تاریخ کا طویل دھرنے دینے کے باوجود مقصد کا حصول ممکن نہ ہوسکا۔تحریک اںصاف کے دورِ اقتدارمیں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی لانگ مارچ کیے،
تاہم دونوں نے ہی حاضری لگا کر واپس کی راہ لی۔رواں سال مارچ میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار کے خاتمے پر عمران خان نے 25مئی کو لانگ مارچ کیا، تاہم وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی حکمت عملی کارگر ثابت ہوئی، مارچ اسلام آباد تو پہنچا لیکن ناگزیر وجوہات پر اس کا اختتام کردیا گیا۔