اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سائفر آڈیو لیکس میں ناقابل ترید شہادتوں کے بعد حکومت اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے پرعزم اقدامات کے فیصلے اور ان کا اعادہ کر رہی ہے بالخصوص آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آئین کی خلاف ورزی کے مرکزی کردار سابق وزیراعظم عمران خان کو ٹھہرائے جانے کے بعد حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ ہائوس اور عدالتوں میں جانے کے
فیصلے پر ابھی تک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مرکزی قائدین کی جانب سے خاموشی ہے اور ابھی تک پی ڈی ایم کے اس اتحاد میں شامل سے کسی مرکزی راہنما نے جاندار اور بلند آواز میں ماضی کی طرح حکومت کی آواز میں آواز نہیں ملائی جبکہ حکومت میں شامل پیپلز پارٹی جس کا مرکزی حکومت میں وزارتوں کا بڑا حصہ ہے اس کی جانب سے بھی کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آرہا دوسری طرف عوامی نیشنل پارٹی نے بھی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ روزنامہ جنگ میں فاروق اقدس کی خبر کے مطابق گوکہ چند روز قبل پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان نے موجودہ صورتحال میں ازسرنو حکمت عملی وضع کرنے کیلئے اجلاس بلانے کا عندیہ دیا تھا لیکن ابھی تک اس ضمن میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی اس صورتحال میں اتحادی اور ہم خیال جماعتوں کی جانب سے اس طرز عمل پر سیاسی حلقوں میں یہ سوال موجود ہے کہ ’’اتحادی کہاں ہیں‘‘۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سینٹ کے سابق چیئرمین میاں رضا ربانی نے کچھ دن پیشتر عمران خان کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی کے مطالبے سے اتفاق نہیں کیا تھا لیکن اس وقت آڈیو لیکس اور عمران خان کی گفتگو سامنے نہیں آئی تھی جبکہ دوسری طرف اپوزیشن کے خلاف اتحادی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنے کا تاثر برقرار رکھنے کیلئے حکومت نے مشترکہ پریس کانفرنسوں اور حکمت عملی وضلع کرنے میں مشاورت اور رابطوں کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ بھی اب دکھائی نہیں دیتا۔