بدھ‬‮ ، 05 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد 25 لاکھ تک پہنچ گئی

datetime 16  دسمبر‬‮  2014
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد۔۔۔۔پاکستان میں قبائلی علاقوں کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق خیبر ایجنسی اور شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کے بعد ان علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد لگ بھگ 25 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔نقل مکانی کرنے والے متاثرین کی تعداد ماضی کے مقابلے میں زیادہ ہوگئی ہے تاہم اب تک ان کی واپسی کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ان متاثرین کی ایک بڑی تعداد اپنے طور پر کرائے کے مکانات، رشتہ داروں اور دوستوں کے ہاں مقیم ہیں جبکہ چھ ہزار سے زیادہ خاندان پشاور کے قریب جلوزئی کیمپ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔خیبر ایجنسی کی سرحد کے قریب واقع علاقہ شیخان سے مقامی لوگوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں ایسا کوئی گھر یا حجرہ نہیں ہے جو خالی ہو یہاں تک کہ بڑی تعداد میں لوگ خستہ حال مکانات میں بھی مقیم ہیں۔ماضی میں سوات اور باجوڑ ایجنسی میں کیے گئے فوجی آپریشنز کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والے متاثرین کی تعداد حالیہ فوج آپریش سے بڑھ گئی ہے۔ اس وقت رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ متاثرین کی تعداد 25 لاکھ تک ہے۔فاٹا ریسرچ سینٹر کے محقق فضل سعید نے بی بی سی کو بتایا کہ ماضی میں سوات اور باجوڑ ایجنسی میں کیے گئے فوجی آپریشنز کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والے متاثرین کی تعداد حالیہ فوج آپریش سے بڑھ گئی ہے۔انھوں نے کہا کہ’اس وقت متاثرین کی رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ تعداد 25 لاکھ تک ہے۔انھوں نے بتایا کہ ’فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق دو لاکھ 88 ہزار 6 سو خاندان بے گھر ہیں، لیکن اس میں یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس میں خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے دس ہزار خاندان تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے شامل نہیں جبکہ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایسے خاندانوں کی تعداد 25 ہزار ہے اور اگر ان کی بھی شامل کیا جائے تو ایسے خاندانوں کی تعداد 3 لاکھ 24 ہزار کے قریب بنتی ہے اور فی خاندان کو 8 سے ضرب دی جائے تو یہ کل تعداد 25 لاکھ 92 ہزار افراد بنتے ہیں۔‘فضل سعید کے مطابق ان خاندانوں نے نقل مکانی کرنے کے بعد اپنی اندراج تو کرایا ہے لیکن نامکمل دستاویزات( شناختی کارڈ) کی وجہ سے نادرا ان کی تصدیق نہیں کر سکی۔
جلوزئی کیمپ میں مقیم حاجی گلبت خان آفریدی نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں تین ہزار خاندان کیمپ میں پہنچے ہیں جن میں بیشتر عدم سہولیات کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ متاثرین کا موقف ہے پہلے قبائلی عمائدین اور رہنما واپس اپنے علاقوں کو جائیں گے تاکہ معلوم ہو سکے کہ علاقے میں اب مکمل امن قائم ہے جس کے بعد متاثرین خود واپس چلے جائیں گے۔
ان متاثرین کی واپسی کے حوالے سے اب تک کوئی حتمی اعلان نہیں ہوا ہے تاہم افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ متاثرین کی واپسی جلد ہو سکتی ہے۔
شمالی وزیرستان جرگے کے رہنما ملک جانفراز وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت اور سکیورٹی حکام متاثرین کی واپسی کے لیے ان پر کچھ ذمہ داریاں ڈالنا چاہتی ہے لیکن انھیں نہیں معلوم کہ یہ کیا ذمہ داریاں ہوں گی؟
انھوں نے کہا کہ عمائدین نے اس مہینے کے اوائل میں کہا تھا کہ حکومت انھیں ان ذمہ داریوں کی تفصیل بتائے اور اگر یہ ذمہ داریاں انگریز کے دور کے قانون ایف سی آر کے مطابق ہیں تو اس صورت میں وہ یہ ذمہ داری اٹھانے کو تیار ہیں۔
فوجی حکام کے مطابق شمالی وزیرستان کا بڑا علاقہ شدت پسندوں سے صاف کر دیا گیا ہے جہاں اب تک 1200 سے زیادہ شدت پسند مارے جا چکے ہیں جبکہ خیبر ایجنسی میں اب بھی فوجی کارروائیاں جاری ہیں۔



کالم



دنیا کا انوکھا علاج


نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…

یونیورسٹی آف نبراسکا

افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں…

افغانستان

لاہور میں میرے ایک دوست تھے‘ وہ افغانستان سے…

یہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ

لیڈی اینا بل ہل کا تعلق امریکی ریاست جارجیا سے…

دنیا کا واحد اسلامی معاشرہ

میں نے چار اکتوبر کو اوساکا سے فوکوشیما جانا…