اسلام آباد (این این آئی) مسلم لیگ (ضیاء ) کے صدر سابق وفاقی وزیر اعجاز الحق کے سسر اور بلوچستان و سندھ کے سابق اور سابق چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی گورنر جنرل ریٹائرڈ رحیم الدین خان کی وفات پر چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا ، پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ، نیول چیف امجد خان نیازی ،سربراہ پاک فضائیہ ائیر مارشل ظہیر
احمد بابر نے گہرے دکھ ، رنج وغم اور تعزیت کا اظہار کیا ہے ۔ یاد رہے کہ جنرل ریٹائرڈ رحیم الدین پاکستان کے پہلے کیڈٹ تھے جو فوج میں اعلیٰ ترین منصب تک پہنچے۔ وہ 21 جولائی 1926 کو قائم گنج اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کالج سے کی جس کی بنیاد ان کے چچا ذاکر حسین نے تقسیم برصغیر سے قبل رکھتی تھی۔ ان کے چچا ذاکر حسین بھارت کے سابق صدر رہ چکے ہیں ،تقسیم ہندوستان کے دوران ان کے بھائی معروف ماہر تعلیم اور تحریک پاکستان کے کارکن ڈاکٹر محمود حسین مرحوم نے پاکستان ہجرت کو ترجیح دی جس کی پیروی جنرل (ر) رحیم الدین مرحوم نے کی۔ اس زمانے میں پاکستان ملٹری اکیڈیم (پی یو اے) ابتدائی مراحل میں تھی جہاں جنرل (ر) رحیم الدیٰ کو اس کا پہلا کیڈٹ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے بلوچ رجمنٹ کے انفنٹری آفیسر کی حیثیت سے پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ انہوں نے ایک کیپٹن کی حیثیت سے لاہور کے ہنگاموں کو کچلنے کے لئے ملٹری ایکشن میں حصہ لیا۔
انہوں نے مجلس احرار کے رہنماء مولانا عبدالستار نیازی کو گرفتار کیا۔ رحیم الدین خان نے مسجد وزیر خان کے محاصرے کے لئے جنرل حیاء الدین کے احکامات ماننے سے انکار کیا، یہ غیر قانونی احکامات اور چین آف کمانڈ سے ماورا تھے۔ یہ معاملہ اس وقت حل ہوا جب ان کے انکار کی جی او سی جنرل عظیم خان نے حمایت کی۔
وہ 1978 سے 1984 تکے طویل ترین گورنر بلوچستان رہے۔ جہاں انہوں نے شورش کو کو کچل دیا۔ انہوں نے بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کر کے صوبے میں فوجی آپریشن بند کئے۔ فراری باغیوں کے پاس جا کر متاثرین کے لئے معاوضوں کا اعلان کیا اور 1980 تک بغاوت کو کچلنے میںجنرل رحیم کامیاب ہوگئے۔انہوں نے کوئٹہ اور دیگر بلوچستان کے شہروں اور قصبوں کے لئے قدرتی گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا ۔
مرکزی مزاحمت ہونے کے باوجود بلوچستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا۔انہوں نے چاغی میں ایٹمی تجربات کے لئے سائنس کی تعمیر کی نگرانی کی،جہاں 1998 میں نواز شریف حکومت کے دور میں ایٹمی تجربات کئے گئے اور پاکستان ایٹمی طاقت کاحامل پہلا اسلامی ملک بن گیا۔
افغانستان میں سوویت یونین کی جنگ میں انہوں نے افغانی فائٹرز کو بلوچستان میں جگہ دینے کی مخالفت کی۔ان کی افغان مجاہدین کی افغانستان میں واپسی کی مہم جی ایچ کیو کی پالیسی کے خلاف تھی جنرل رحیم الدین مرحوم کو فوج میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔وہ ملک کے چوتھے چیئرمین جائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی رہے۔
معرررف صحافی نسیم زہرہ اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں کہ جنرل رحیم کا رگل پلان کو مسترد کردیا تھااور اسے کارگل پلان کو مسترد کردیا تھا اس کے بالائے طاق 15 سال بعد جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس پر عمل درآمد ہوا جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔وہ فوجی افسران کی ملازمتوں میں توسیع کے شدید مخالف تھے۔انہوں نے خود جنرل ضیاالحق کی جانب سے اپنی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع ٹھکرادی تھی۔
09۔1987میں ریٹائر ہوگئے۔جس پر جنرل کے ایم عارف کو وائس چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے توسیع دی گئی۔لیکن ایک سال کے اندر ہی وہ جنرل ضیاء الحق اور وزیراعظم محمد خان جونیجو میں بڑھتی خلیج کی نذر ہوگئے۔جنرل رحیم الدین 1988 میں سندھ کے سویلین گورنر بھی رہے۔جب مختصر عرصہ کے لئے گورنر راج لگایا گیا تھا۔
انہوں نے جرائم پیشہ طور لینڈ مافیا کے خلاف کریک ڈائون کیا۔مرکز کو ایم کیو ایم کی حمایت سے روکا جب اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان سندھ میں وزارت اعلیٰ کو بحال کرنا چاہا تو جنرل رحیم گورنر کے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ راولپنڈی میں اپنی ریٹائرمنٹ کیدنوں میں انہوں نے آرمی چیف کے لیے جنرل آصف نواز اور جنرل عبد الوحید کاکڑ کی حمایت کی۔ وہ اپنے چالیس سالہ پیشہ ورانہ کیرئیر میں اپنی دیانت داری سے نام کمایا۔