نیویارک (این این آئی)خنزیر کے جینیاتی طور پر تدوین شدہ 2 دل انسانوں میں کامیابی سے ٹرانسپلانٹ کیے گئے ہیں۔یہ رواں سال کے دوران دوسری بار ہے جب ڈاکٹروں نے اس طرح کے ٹرانسپلانٹ کو کامیابی سے مکمل کیا۔نیویارک یونیورسٹی کے ماہرین نے 16 جون اور 6 جولائی 2022 کو یہ ٹرانسپلانٹ کیے۔یہ دل 2 ایسے افراد میں لگائے گئے تھے جو پہلے ہی دماغی طور پر مردہ
قرار دیے جاچکے تھے۔ٹرانسپلانٹ کیلئے خنریز کے دل میں 10 جینیاتی تبدیلیاں کی گئی تھیں، جن میں سے 4 جانور کے جینز کو بلاک کرنے کے لیے تھیں جبکہ 6 انسانی جینز کے اضافے کیلئے کی گئی تھیں تاکہ مریض کا جسم اس دل کو مسترد نہ کرے۔سرجری کے بعد محققین نے 3 دن تک مریضوں کے دل کے افعال کی مانیٹرنگ کی اور پھر ان آپریشنز کو کامیاب قرار دیا۔انہوں نے دریافت کیا کہ یہ دل صحت مند طریقے سے کام کررہے ہیں اور جسم کے مسترد کرنے کی کوئی نشانیاں سامنے نہیں آئیں۔اسی طرح ٹیسٹوں سے ثابت ہوا کہ انسانی جسم میں اس ٹرانسپلانٹ کے بعد کسی قسم کا وائرل انفیکشن سامنے نہیں آیا۔نیویارک یونیورسٹی کے گروسمین اسکول آف میڈیسین کے چیئرمین ڈاکٹر رابرٹ منٹگمری نے کہا کہ عموماً خنریز کے اعضا کے ساتھ ایک وائرس بھی انسانی جسم میں منتقل ہوجاتا ہے، مگر ہماری اسکریننگ میں اسے دریافت نہیں کیا گیا۔دونوں آپریشنز کے بارے میں تفصیلات 12 جولائی کو نیویارک یونیورسٹی کی جانب سے جاری کی گئی تھیں۔
خیال رہے کہ 2022 کے آغاز میں پہلی بار امریکی ریاست میری لینڈ سے تعلق رکھنے والے 57 سالہ ڈیوڈ بینیٹ کو 12 جنوری 2022 کو کامیاب آپریشن میں خنزیر کا جینیاتی طور پر تیار کردہ دل لگایا گیا تھا مگر ٹرانسپلانٹ کے 2 ماہ بعد اس مریض کا انتقال ہوگیا تھا۔ڈیوڈ کا آپریشن کرنے والی ٹیم میں پاکستانی نڑاد ڈاکٹر منصور محی الدین بھی شامل تھے۔
اس موقع پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر منصور نے کہا تھا کہ ابتدائی تجربات میں بندر کا دل لگایا جاتا تھا لیکن وہ مفید ثابت نہ ہوا البتہ خنزیر پر تجربہ مفید رہا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے سارے جانوروں کا معائنہ کیا کہ کونسا جانور انسان کے قریب ہے، شروع میں بندروں کا دل لگایا گیا تو وہ اتنا مفید ثابت نہیں ہوا۔
چند مہینوں کے خنزیر کا دل بڑے انسان کے دل کے برابر کے سائز پر آجاتا ہے، اس کے علاوہ بھی کچھ وجوہات ہیں جس بنا پر ہم نے تمام ریسرچ خنزیر پرکی۔انہوں نے بتایا کہ مریض میں خنزیر کے دل کے ٹرانسپلانٹ پر ایک کروڑ 75 لاکھ پاکستانی روپے لاگت آئی۔
اس حوالے سے ڈاکٹر منصور کا کہنا تھا کہ ابتدائی تجربے کی وجہ سے لاگت زیادہ ہے لیکن ٹرانسپلانٹ میں فکر کرنے کی زیادہ ضرورت نہیں۔انہوں نے کہا کہ جس مریض میں دل لگایا وہ بہت بیمار تھا، سوائے اس کے ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، اس معاملے پر مریض اور اس کے دل کو مسلسل مانیٹر کرنا پڑتا ہے، خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ہم نے مریض کو نیا دل دیا ہے لیکن کیا باقی جسم بھی اس چیز کو قبول کرے گا۔