اتوار‬‮ ، 24 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

جبرالٹر سے

datetime 23  اگست‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اور میں پھر طارق بن زیاد کے شہر میں داخل ہو گیا‘ جبرالٹر میرے سامنے تھا‘ دور دور تک تاحد نظر سمندر کا نیلگوں پانی تھا‘ پانی کے درمیان خشکی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا‘ خشکی کے اس چھوٹے سے ٹکڑے پر پہاڑیاں تھیں اور ان پہاڑیوں پر موسیٰ بن نصیر کے اس غلام زادے کے قدموں کے نشان تھے جنہیں اس کی زندگی میں بھی مٹانے کی کوشش کی گئی‘ اس کی موت کے بعد بھی اور پھر تاریخ کے قبرستان میں دفن ہونے کے بعد بھی لیکن اللہ جب کسی کو عزت دیتا ہے تو پھر پوری دنیا مل کر بھی اس کا نام گہنا نہیں سکتی اور طارق بن زیاد اس سچائی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت تھا‘ ثبوت ہے اور ثبوت رہے گا‘ آپ اگر سپین میں سفر کریں‘ اندلس کی اس سلطنت میں داخل ہوں جس کی بنیاد مسلمانوں نے 710ءمیں رکھی تھی‘ جس میں مسلمانوں نے قرطبہ‘غرناطہ‘ اشبیلیہ اور طلیطہ جیسے شہر آباد کئے اور جہاں سے مسلمانوں نے آدھا فرانس فتح کر لیا‘ آپ اس گم گشتہ اندلس میں سفر کرتے ہوئے مراکش کی طرف چلیں‘ آپ غرناطہ سے ہوتے ہوئے لالینا پہنچیں‘ لالینا میں سپین ختم ہو جائے گا تو آپ کو سمندر کے پانیوں میں خشکی کا ایک ٹکڑا ڈولتا ہوا نظر آئے گا‘ یہ ٹکڑا وہ زمین ہے جسے عربوں نے طارق بن زیاد کے نام سے منسوب کیا‘ اسے جبل طارق کا نام دیا‘ یورپ میں مسلمانوں کی سلطنت سات سو سال کا سفر طے کر کے ختم ہوئی‘ جب اندلس کا آخری مسلمان بھی وہاں سے رخصت ہو گیا اور جبل طارق پر بھی عیسائی جھنڈا لہرا دیا گیا تو ہسپانیہ کے لوگوں نے جبل طارق کو جبرالٹر بنا دیا‘ نام بدل گیا لیکن تاریخ آج بھی اسے جبل طارق ہی کہتی ہے اور یہ آخری سانس تک یہی کہتی رہے گی کیونکہ یہ اعزاز اللہ نے اس بربر زادے کو بخشا تھا اور قدرت کے بخشے اعزازوں کی کوئی ایکسپائری ڈیٹ نہیں ہوا کرتی۔
طارق بن زیاد کون تھا؟ یہ ہمیں ہمارے پنجابی استادوں نے تیسری جماعت میں پڑھا دیا تھا‘ وہ کہاں سے آیا‘ اس نے کہاں اور کیوں اپنی کشتیاں جلائیں‘ وہ کس جرات مندی سے لڑا اور اس نے آخر میں کیا کامیابی حاصل کی؟ یہ داستان بھی بچپن ہی میں ہمارے ذہنوں میں بھر دی گئی تھی‘ ہم قرطبہ کا قاضی‘ غرناطہ کے آخری مسلمان حکمران ابو عبداللہ محمد اور مسجد قرطبہ کی داستانیں پڑھ پڑھ کر جوان ہوئے ہیں‘ رہی سہی کسر مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں نے پوری کر دی‘ مستنصر صاحب صرف لکھاری‘ افسانہ نویس یا سفر نامہ نگار نہیں ہیں‘ یہ پاکستان کی تین نسلوں کے محسن بھی ہیں‘ انہوں نے ملک میں سفر کا شوق بھی پیدا کیا اور لوگوں کو دنیا دیکھنے کا جذبہ بھی عنایت کیا‘ میں مستنصر صاحب کے قدموں پر قدم رکھتا ہوا تیسری بار اندلس پہنچا ہوں‘ پہلے دو سفر ادھورے تھے‘ میں نے ان سفروں میں قرطبہ بھی دیکھا اور غرناطہ بھی۔ میں رات کے آخری پہر میں قرطبہ کی گلیوں میں بھی پھرا اور میں نے الحمراءکے کے شیروں والے فوارے کے ساتھ تصویر بھی بنائی لیکن دو حسرتیں رہ گئیں‘ الحمراءکے سامنے قدیم ہوٹل ہیں‘ ان کی کھڑکیوں سے الحمراءنظر آتا ہے‘ میں ان میں سے کسی ہوٹل کی کھڑکی سے الحمراءکی شام دیکھنا چاہتا تھا لیکن مجھے دونوں مرتبہ ہوٹل میں کمرہ نہ ملا‘ میں اس بار پاکستان ہی سے بندوبست کر کے غرناطہ پہنچا‘ دوسرا میں زندگی میں کم از کم ایک بار طارق بن زیاد کا شہر جبرالٹر بھی دیکھنا چاہتا تھا‘ میں اس زمین کو ہاتھ لگانا چاہتا تھا‘ میں اس پر سجدہ ریز ہونا چاہتا تھا جس پر پہنچ کر طارق بن زیاد نے عصر کی نماز ادا کی‘ اللہ تعالیٰ سے نصرت کی دعا کی‘ اپنے جہازوں (کشتیوں) کو آگ لگائی اور پھر اپنے مٹھی بھر لشکر سے مخاطب ہوا‘ آپ کے آگے دشمن اور پیچھے سمندر ہے‘ فیصلہ تم نے کرنا ہے‘ تم نے لڑ کر جیت کر زندہ رہنا ہے یا پھر سمندر میں ڈوب کر جان دینی ہے‘ جوانوں نے یک آواز ہو کر جواب دیا‘ ہم جئیں یا مریں‘ ہم لڑیں گے‘ ہم لڑیں گے اور پھر یورپ میں پہلی مسلمان ریاست نے جبرالٹر میں آنکھ کھولی‘ میں جبرالٹر کو دیکھنے کی حسرت میں جمعہ کی دوپہر جبرالٹر پہنچ گیا‘ پورا شہر‘ پورا ملک سامنے بکھرا تھا۔
وہ بنو امیہ کا دور تھا‘ ولید بن مالک مسلمانوں کا خلیفہ تھا‘ دمشق اسلامی ریاست کا دارالحکومت تھا‘ موسیٰ بن نصیر افریقہ کا والی تھا‘ ابراہیم بن یوسف موسیٰ کا خادم تھا‘ ابراہیم نے زندگی کے ہر اس موڑ پر اپنے آقا کا ساتھ دیا جہاں سارے ساتھی ساتھ چھوڑ گئے‘ ابراہیم نے دوبار موسیٰ کی جان بھی بچائی‘ موسیٰ نے اس وفاداری کے بدلے ابراہیم کو اپنا منہ بولا بھائی اور نائب قرار دے دیا‘ ابراہیم ایک جنگ میں شہید ہو گیا‘ ابراہیم کی بیوہ نے اپنے ننھے بیٹے طارق کا ہاتھ پکڑا اور موسیٰ کے محل پہنچ گئی‘ موسیٰ نے طارق کے سر پر ہاتھ رکھ دیا‘ یوں طارق بن زیاد موسیٰ بن نصیر کی سرپرستی میں آ گیا‘ وہ ایک پیدائشی جرنیل تھا‘ سپہ گری اس کے خون میں شامل تھی‘ وہ تلوار کے ساتھ اس طرح کھیلتا تھا جس طرح پرندے ہواﺅں سے کھیلتے ہیں‘ وہ بلا کا ذہین بھی تھا‘ ایمان اور شجاعت بھی اس پر فدا تھی‘ وہ جوان ہوا تو موسیٰ بن نصیر نے اسے طنجہ کا گورنر بنا دیا‘ یہ شہر آج کل مراکش کا حصہ ہے‘ سمندر کے پانی سپین اور طنجہ کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں‘ دونوں ملکوں میں 14 کلو میٹر کا فاصلہ ہے لیکن سماجی مسافت بہت طویل ہے‘ مراکش افریقہ میں ہے اور سپین یورپ میں۔ طارق بن زیاد نے شہر کا نظم ونسق سنبھال لیا‘ سپین میں اس وقت راڈرک کی حکومت تھی‘ یہ گاتھ قوم کا بادشاہ تھا‘ ظالم بھی تھا‘ لالچی بھی اور بے راہ رو بھی۔ اس دور میں مختلف علاقوں کے والی اپنے بچوں کو شاہی آداب سکھانے کےلئے بادشاہوں کے محلات اور درباروں میں بھجوایا کرتے تھے‘ کاﺅنٹ جولین شاہ راڈرک کا ایک والی تھا‘ اس کی بیٹی ”فلورنڈا“ دربار سے وابستہ تھی‘ وہ بے انتہا خوبصورت تھی‘ بادشاہ اس کی خوبصورتی دیکھ کر بھٹک گیا‘ اس نے اسے محل میں بلایا اور بے آبرو کر دیا‘ بیٹی نے باپ کو اطلاع دے دی‘ باپ بیٹی کو لینے محل پہنچ گیا‘ شاہ کے سامنے حاضر ہوا اور اپنی کسی حرکت سے یہ ظاہر نہ ہونے دیا وہ بیٹی پر گزری قیامت سے واقف ہے‘ اس نے چھٹیاں گزارنے کے بہانے بیٹی کو ساتھ لیا اور گھر روانہ ہو گیا‘ وہ جب آخری ملاقات کےلئے بادشاہ کے پاس گیا تو بادشاہ نے اس سے کہا ” جولین تم اس بار ہمارے لئے کوئی تحفہ نہیں لائے“ جولین نے ادب سے جھک کر عرض کیا ”حضور میں اگلی بار آپ کو ایسا تحفہ دوں گا‘ لوگ صدیوں تک اسے یاد رکھیں گے“ جولین اس کے بعد سیدھا موسیٰ بن نصیر کے پاس حاضر ہوا اور اسے سپین پر حملے کی ترغیب دی‘ وہ یورپ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن جولین کی ترغیبات بھی تگڑی تھیں اور اس کی کہانی بھی افسوس ناک چنانچہ موسیٰ بن نصیر نے اپنے دو جرنیلوں طارق بن زیاد اور طریف بن مالک کو سات سات ہزار جوانوں کے دو لشکر بنا کر دیئے اور انہیں جولین کے ساتھ سپین روانہ کر دیا‘ یہ دونوں جرنیل صرف ریکی کےلئے آئے تھے لیکن وہ سپین کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی شوق جہاد کے ایسے جنون میں مبتلا ہوئے کہ وہ اس وقت تک واپس نہیں لوٹے جب تک سپین کے تمام بڑے شہر ان کے قدموں میں نہیں آ گئے‘ طریف بن مالک سپین کے جس ساحل پر اترا وہاں اس کے نام سے ایک شہر آباد ہوا‘ یہ شہر آج بھی طریفا کے نام سے موجود ہے‘ یہ ایک جدید شہر ہے‘ لوگ اسے طریفا پکارتے اور طریفا لکھتے ہیں لیکن یہ شہر کس نے آباد کیا‘ کیسے آباد کیا اور کیوں آباد کیا؟ زیادہ تر لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں‘ طارق بن زیاد 5 اپریل 710ءکو جبرالٹر میں اترا اور جہازوں کو آگ لگائی‘ اس کے پاس کل سات ہزار جوان تھے‘ اکثریت اس کے اپنے قبیلے بربر سے تعلق رکھتی تھی‘ راڈرک چالیس ہزار فوج لے کر آیا‘ مقابلہ ہوا‘ راڈرک کو شکست ہوئی اور وہ میدان سے فرار ہو گیا‘ طارق بن زیاد جبرالٹر کا قبضہ لینے کے بعد سپین میں اتر گیا‘ 19 جولائی 711ءکو وادی لکا میں بڑا معرکہ ہوا‘ راڈرک یہ جنگ بھی ہار گیا اور یوں اندلس پر عملاً مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا‘ اسلامی لشکر نے اس کے بعد طلیطہ پر بھی قبضہ کر لیا‘ یہ شہر آج بھی قائم ہے اور ٹولیدو کہلاتا ہے‘ طارق بن زیاد کی فتوحات کی خبریں جب افریقہ پہنچیں تو موسیٰ بن نصیر کے دل میں طارق کےلئے رشک کا جذبہ پیدا ہو گیا‘ اس نے طارق کو مزید فتوحات سے روک دیا‘ اپنی سلطنت اپنے بیٹے عبداللہ بن موسیٰ کے حوالے کی اور 18 ہزار جوان لے کر خود بھی سپین پہنچ گیا‘ یہ جس مقام سے اندلس پہنچا‘ وہ بعد ازاں جبل موسیٰ کہلایا لیکن یہ جبرالٹر کی طرح مشہور نہ ہو سکا‘ موسیٰ اسلامی لشکر کو قرطبہ تک لے گیا‘ خلیفہ بن ولید بن مالک ایک ”سیلف سینٹرڈ“ بادشاہ تھا‘ وہ اپنے علاوہ کسی کو کامیاب اور کامران نہیں دیکھ سکتا تھا‘ اس نے طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کی فتوحات کی خبریں سنیں تو اس نے دونوں کو دمشق طلب کر لیا‘ موسیٰ نے قرطبہ کا چارج اپنے بیٹے عبداللہ کے حوالے کیا اور طارق کو لے کر دمشق پہنچ گیا‘ بادشاہ نے دونوں کو معزول کیا اور ان کا احتساب شروع کر دیا یہاں سے اسلامی تاریخ کے دو عظیم جرنیلوں کا زوال شروع ہو گیا اور یہ دونوں گم نامی کے اندھیروں میں اتر گئے‘ طارق بن زیاد 720ءمیں فوت ہوا‘ اس وقت اس کی عمر محض 39 سال تھی‘ وہ کیسے مرا‘ اس کے جنازے میں کتنے لوگ تھے اور وہ کہاں دفن ہوا تاریخ کے پاس کوئی جواب نہیں تاہم تاریخ اتنا جانتی ہے مسلمانوں کو آج تک جتنا نقصان مسلمانوں نے پہنچایا‘ اتنا نقصان کوئی دوسرا نہیں پہنچا سکا اور طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر اس حقیقت کی بہت بڑی مثال ہیں۔
طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر تاریخ کے گم نام صحراﺅں میں گم ہو گئے لیکن سپین آج بھی زندہ ہے‘ زندگی جبرالٹر ںمیں بھی زندہ ہے اور جب تک جبرالٹر اور سپین دونوں موجود ہیں دنیا کا کوئی شخص طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر سے ان کا نام اور کارنامہ نہیں چھین سکتا‘ طارق اور موسیٰ کے زوال کے بعد اندلس کی سلطنت کو جھٹکا لگا‘ فتوحات کا سلسلہ رک گیا‘ موسیٰ بن نصیر کا بیٹا عبداللہ بن نصیر قرطبہ میں قتل کر دیا گیا لیکن یہ افراتفری عارضی تھی کیونکہ 788ءمیں اموی شہزادے عبداللہ اول نے قرطبہ میں پہلی اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی‘ مسلمان آگے بڑھے اور اسلامی سلطنت شمالی سپین کے علاقے استوریاس اور فرانس کے وسط تورز تک پھیل گئی‘ یہ اسلامی سلطنت 1460ءتک قائم رہی‘ اس دوران یورپ کے عیسائی اکھٹے ہوئے‘ 1072ءمیں اندلس پر حملے شروع ہوئے‘ 1212ءمیں عیسائیوں نے طولوسہ فتح کر لیا‘ 1236ءمیں قرطبہ سے اسلامی پرچم اتر گیا‘ 1250ءمیں ٹولیدو اور اشبیلیہ بھی چلا گیا اور جنوری 1492ءمیں غرناطہ کی چابیاں بھی فرڈینینڈ اور ازابیلا کو مل گئیں‘ اندلس کے 30 لاکھ مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا‘ زندہ جلا دیا گیا یا پھر عیسائی بنا لیا گیا لیکن یہ بعد کی کہانیاں ہیں‘ میں آج جبل طارق میں تھا جسے دنیا جبرالٹر کہتی ہے‘ جہاں آج سے 1300 سال قبل ایک بربر زادے نے قدم رکھا‘ اذان دی اور اس زمین کو مسلمان بنا لیا اور جبرالٹر‘ آج کا جبرالٹر کھلی کتاب کی طرح میرے سامنے کھلا پڑا تھا۔



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…