نیویارک(این ین آئی)اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ گلوبل لینڈ آئوٹ لک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پاکستان ان 23 ممالک میں شامل ہے جنہیں گزشتہ دوبرسوں(2020-2022) دوران خشک سالی کی ہنگامی صورتحال کا سامنا رہا ہے۔اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسداد بنجرپن (یو این سی سی ڈی)کی جانب سے اقوام متحدہ کے بنجر پن اور خشک سالی کے عالمی دن(17جون)
سے قبل جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ صدی کے دوران خشک سالی سے سب سے زیادہ ایشیائی ممالک کے باشندے متاثر ہوئے۔اقوام متحدہ کی جاری کردہ تحقیق کے مطابق جن ممالک کو خشک سالی کی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے ان میں افغانستان، انگولا، برازیل، برکینا فاسو، چلی، ایتھوپیا، ایران، عراق، قازقستان، کینیا، لیسوتھو، مالی، موریطانیہ، مدغاسکر، ملاوی، موزمبیک، نائجر، سومالیہ، جنوبی سوڈان، شام، پاکستان، امریکا اور زیمبیا شامل ہیں۔مستقبل کے حالات کے بارے میں رپورٹ میں 2050 تک نتائج اور اس میں شامل خطرات کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا گیا کہ 2050 تک اضافی 40 لاکھ مربع کلومیٹر قدرتی علاقوں (جو کہ بھارت اور پاکستان کی حجم کے برابر ہیں)کو بحالی کے اقدامات کی ضرورت ہوگی، جن کے تحت علاقوں کے تحفظ کے اقدامات کو بڑھایا جائے گا، حیاتیاتی تنوع، پانی کے ضابطے، مٹی اور کاربن کے ذخیرے کے تحفظ، اور ماحولیاتی نظام کے اہم افعال کی فراہمی شامل ہوگی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زمین کی 40 فیصد سطح تباہ حالی کا شکار ہے جو کہ براہ راست انسانی آبادی کے نصف کو متاثر کرنے کے ساتھ تقریبآ 44 کھرب ڈالرز کی عالمی معیشت کے نصف کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہے۔
2050 تک صورتحال اگر اسی طرح جاری رہی تو رپورٹ میں تقریبا جنوبی امریکا کے رقبے کے برابر علاقے کے مزید تباہی کا اندازہ لگایا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2030 تک تباہ حالی کا شکار ایک ارب ہیکٹر کی بحالی کے عزم کے لیے رواں دہائی میں 1.6 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہے جو کہ آج کے سالانہ 7 کھرب ڈالرز کی فوسل فیول اور زرعی سبسڈی کا ایک حصہ ہے۔رپورٹ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ جدید تاریخ کے کسی اور موڑ پر انسانیت کو ایسے مانوس اور غیرمانوس خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو ایک انتہائی جڑی ہوئی اور تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں پیش آ رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سے روایتی اور جدید خوراک کی پیداوار کے طریقے شعبہ زراعت کو زمین اور مٹی کی بحالی کے لیے بنیادی کیٹالسٹ بننے کے قابل بنا سکتے ہیں۔غریب دیہی طبقے، چھوٹے کسان، خواتین، نوجوان، مقامی لوگ اور دیگر گروہ غیرمتناسب طور پر بنجرپن، زمین کی تباہ حالی اور خشک سالی کا سامنا کر رہے ہیں۔تاہم اس کے ساتھ ساتھ مقامی لوگ اور برادریوں کے روایتی علم اور زمین کی دیکھ بھال کے ثابت شدہ طریقے، انسانی اور سماجی سرمائے کے ایک وسیع ذخیرے کی نمائندگی کرتے ہیں جس کا احترام کیا جانا چاہیے اور اسے قدرتی سرمائے کی حفاظت اور بحالی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ان ترقی پذیر ممالک میں تحفظ اور بحالی کے لیے فنڈز فراہم کرنیفوری ضرورت ہے جہاں حیاتیاتی تنوع اور کاربن سے بھرپور عالمی ماحولیاتی نظام کا بڑا حصہ موجود ہے۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر اسی طرح زمین کی تباہ حالی کا سلسلہ جاری رہا تو خوراک کی فراہمی میں رکاوٹیں، جبری نقل مکانی، حیاتیاتی تنوع میں تیزی سے کمی اور جانوروں کی نسلوں کی معدومیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ کورونا جیسی بیماریوں، انسانی صحت اور زمینی وسائل کے تنازعات جیسے مزید خطرات کا سامنا ہوگا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تخلیقِ نو کے لیے زراعت کے بہت سے طریقوں میں فصلوں کی پیداوار بڑھانے اور ان کی غذائیت کے معیار کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ گرین ہائوس گیسز کے اخراج اور ماحول سے کاربن کو کم کرنے کی صلاحیت ہے۔