لاہور(ان این آئی) چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب ) جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ ملک سے جب تک کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوتا اس وقت تک کشکول ہمارے ہاتھ میں رہے گا، نیب کا بنیادی کام کرپشن کا خاتمہ ہے لیکن اس کے لیے بھی ایک مضبوط ادارہ اور مربوط پالیسی کی ضرورت ہے، یہ مناسب نہیں کہ آپ ہر تیسرے دن یہ کہیں کہ ادارے کے پاس فلاں اختیار یا پالیسی نہیں ہونی چاہیے،
حالیہ مدت میں 50 ارب سے زائد کی ریکوری لوگوں میں تقسیم ہوچکی ہے، وہ لوگ اور ان کی دستاویزات ہمارے پاس بطور ثبوت موجود ہیں، جسے بھی حساب کتاب چاہیے وہ نیب کے کسی بھی دفتر میں جب چاہے آکر حساب کتاب لے لے، اگر کوئی خامی نظر آئی تو میں اس کی ذمہ داری قبول کروں گا،نیب نے گزشتہ 4 برسوں میں 13 کھرب 63 ارب روپے سے زائد کی ریکوری کی، مختلف عدالتوں میں ایک ہزار 405 کیسز زیر سماعت ہیں، اگر یہ فیصلے جلدی ہوجائیں تو اس رقم سے ملک کی اقتصادی حالت بہتر ہوسکتی ہے،لوگ کہتے ہیں نیب کے کیسز میں سزائیں نہیں ہوتیں جبکہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ نیب کے کیس میں ہی ہوا ہے، نیب کے پاس جتنے وسائل ہیں انہیں بہترین طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے،لوگوں کا خیال ہے کہ نیب کے قوانین میں ترامیم ہونی چاہیے، پارلیمنٹ بااختیار ہے، قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے، پارلیمنٹ جو بھی قانون بنائے گی ان کا حق ہے، ہم اس پر عمل درآمد کرنے پر تیار ہیں لیکن قانون ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ ایسا ہونا چاہیے جس سے ملک میں کرپشن کا خاتمہ ہو۔لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کا بنیادی کام کرپشن کا خاتمہ ہے لیکن اس کے لیے بھی ایک مضبوط ادارہ اور مربوط پالیسی کی ضرورت ہے، یہ مناسب نہیں کہ آپ ہر تیسرے دن یہ کہیں کہ ادارے کے پاس فلاں اختیار یا پالیسی نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے دنوں ایک صاحب نے کہا کہ ریکوری کہاں چلی گئی؟ نیب کوئی الماری نہیں ہے جس کے اندر ریکوری رکھی گئی ہے، حالیہ مدت میں 50 ارب سے زائد کی ریکوری لوگوں میں تقسیم ہوچکی ہے، وہ لوگ اور ان کی دستاویزات ہمارے پاس بطور ثبوت موجود ہیں۔جاوید اقبال نے کہا کہ میں نے گزشتہ ساڑھے 4 برسوں میں یہی کوشش کی کہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو، خواہ وہ کوئی بھی ہو، لیکن یہ لوگ جب آتے ہیں اور ان
سے پوچھا جائے کہ آپ نے ایسا کیا ہے؟ تو ان کے ماتھے پر تیوریاں آجاتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بداخلاقی اور بدسلوکی کی جارہی ہے، یہ بدسلوکی یا بداخلاقی نہیں ہے، آپ نے لوگوں کی جو امانت لوٹی اس کا کوئی تو ازالہ ہونا چاہیے۔چیئرمین نیب نے کہا کہ اس ملک سے جب تک کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوتا اس وقت تک ہمارے ہاتھ میں کشکول رہے گا، میں دعوت دیتا ہوں کہ جسے بھی حساب کتاب چاہیے وہ نیب کے کسی بھی دفتر
میں جب چاہے آکر حساب کتاب لے لے، اگر کوئی خامی نظر آئی تو میں اس کی ذمہ داری قبول کروں گا۔انہوں نے کہا کہ جتنی ریکوری آج تک ہوئی ہے اس کا حساب موجود ہے، نیب واحد ادارہ ہے جس کا مکمل آڈٹ ہو چکا ہے، کچھ خامیاں ضروری ہوں گی لیکن یقین دلاتا ہوں کہ وہ ارادتا نہیں ہوئیں، خامیوں سے پاک صرف رب کی ذات ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نیب نے گزشتہ 4 برسوں میں 13 کھرب 63 ارب روپے سے زائد کی ریکوری کی، مختلف
عدالتوں میں ایک ہزار 405 کیسز زیر سماعت ہیں، اگر یہ فیصلے جلدی ہوجائیں تو اس رقم سے ملک کی اقتصادی حالت بہتر ہوسکتی ہے، متعلقہ لوگوں سے درخواست کروں گا کہ نیب کے ساتھ تعاون کریں۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ آج کا حساب چھوڑ کر کل 8 کھرب 84 ارب کی ریکوری ہوچکی ہے، صرف میرے دور میں 5 کھرب 96 ارب کی ریکوری ہوئی ہے، جو کچھ ریکور ہوا وہ ان کے مالکان تک پہنچا دیا گیا۔چیئرمین نیب نے کہا کہ لوگ کہتے
ہیں نیب کے کیسز میں سزائیں نہیں ہوتیں جبکہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ نیب کے کیس میں ہی ہوا ہے، نیب کے پاس جتنے وسائل ہیں انہیں بہترین طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ نیب کے قوانین میں ترامیم ہونی چاہیے، پارلیمنٹ بااختیار ہے، قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے، پارلیمنٹ جو بھی قانون بنائے گی ان کا حق ہے، ہم اس پر عمل درآمد کرنے پر تیار ہیں لیکن قانون ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ ایسا ہونا چاہیے
جس سے ملک میں کرپشن کا خاتمہ ہو۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ میں یہ دعوی نہیں کررہا کہ نیب نے ملک میں کرپشن ختم کردی ہے لیکن خوف ضرور پیدا کردیا ہے، اس میں نیب لاہور کا بڑا اہم کردار ہے، ڈی جی نیب لاہور کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ نیب کسی دور میں کسی کے لیے مسئلہ نہیں رہا بلکہ مسائل کا حل ہے، یہ سامنے متاثرین بیٹھے ہیں انکے دکھوں کا مداوا نیب ہی کروا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ زمین خریدتے وقت صرف بروشر نی دیکھا کریں، پیسہ کہیں بھی لگانے سے پہلے 10 مرتبہ سوچ لیا کریں، کہیں سے رہنمائی نہ ملے تو نیب سے آکر پوچھ لیا کریں، 86 فیصد سوسائٹیاں جعلی ہیں، عوام کو کہتے ہیں احتیاط سے پلاٹوں کی بکنگ کریں۔