ہفتہ‬‮ ، 28 ستمبر‬‮ 2024 

مذہب کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں، اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہے، ہمیں اپنا بیانیہ آگے بڑھانا ہوگا وزیر اعظم عمران خان کا او آئی سی اجلاس سے دبنگ خطاب

datetime 22  مارچ‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی) و زیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہے، دہشتگردی کا کسی مذہب سے تعلق نہیں،مسلمان ڈیڑھ ارب ہیں ،اہمیت نہیں دی جارہی، تمام مسلمان ممالک کی اپنی اپنی خارجہ پالیسی ہے،مسلم ممالک نے متحد ہوکر متفقہ موقف اختیار نہ کیا تو کوئی ہمیں نہیں پوچھے گا،فلسطینیوں اور کشمیریوں کو ہم نے مایوس کیا، افسوس ہورہا ہے ہم اس حوالے سے کوئی اثر قائم نہیں کر سکے،ہمیں اپنا بیانیہ آگے بڑھانا ہوگا۔

منگل کو او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کو ہم نے مایوس کیا، مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہورہا ہے کہ ہم اس حوالے سے کوئی اثر قائم نہیں کر سکے، ہمیں سنجیدہ نہیں لیا جاتا، ڈیڑھ ارب مسلم آبادی ہونے کے باوجود ہم اس ظلم کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا خود فیصلہ کرنیکا اختیار بھی نہیں دیا جارہا جس کی عالمی برادری نے ضمانت دی تھی بلکہ 5 اگست 2019 کو ان سے خصوصی حیثیت بھی چھین لی گئی، بھارت مسلمان آبادی کا تناسب تبدیل کرنا چاہ رہا ہے اور اس حوالے سے اسے کوئی خوف یا دبائو نہیں ہے، اسی طرح فلسطین میں بھی مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور اسرائیل کو بھی کوئی روکنے والا نہیں ہے کیونکہ وہ ہمیں غیر موثر سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تمام مسلمان ممالک کی اپنی اپنی خارجہ پالیسی ہے تاہم او آئی سی کے اس پلیٹ فارم کے ذریعے کم از کم ان بنیادی ایشوز پرہمیں متفقہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا جب تک ہم ڈیرھ ارب مسلمان متحد نہیں ہوجاتے تب تک ہمیں سنا نہیں جائے گا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کو مستحکم کرنا انتہائی ضروری ہے، افغان عوام جیسا مشکل ترین دور دنیا میں کسی نے نہیں برداشت کیا، پابندیوں کی وجہ سے افغناستان میں انسانی بحران کا خطرہ ہے، یہ بہت ضروری ہے کہ ایسے وقت میں ہم افغان عوام کی مدد کریں۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ صرف مستحکم افغانستان ہی عالمی سطح پر دہشتگری کو روکنے کا واحد طریقہ ہے، یہ بات ذہن سے نکال دیں کے کوئی ملک آکر ڈرون حملے کرے گا اور دہشتگردی کے مسئلے سے جان چھوٹ جائے گی، ایک مستحکم افغان حکومت ہی اس مسئلے کا حل نکال سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ میں تنبیہ کرتا ہوں کہ افغان عوام کو اس حد تک نے دھکیلیں کہ ان کو اپنی خودمختاری دائو پر لگتی محسوس ہو۔

افغان غیور عوام ہیں جنہوں نے اپنی بقا کے لیے صدیوں تک جنگ لڑی، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ افغان عوام کی حوصلہ افزائی اور انہیں عالمی برادری کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے لیکن یہ واضح رہے کہ افغان عوام بیرونی مداخلت پسند نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ سردجنگ کے دہانے پر کھڑی دنیا اس وقت غلط جانب بڑھ رہی ہے، دنیا کے مختلف بلاکس میں تقسیم ہونے کے امکان موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں موجود تمام لوگ یوکرین کی صورتحال سے بخوبی واقف ہیں، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ڈیڑھ ارب مسلم آبادی کی نمائندگی کرتے ہوئے ہم کس طرح اس تنازع میں ثالث کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ مل کر ہمیں اس تنازع کا فوری حل نکالنے کی ضرورت ہے ورنہ اس کے اثرات پوری دنیا کو برداشت کرنے پڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس تنازع کے اثرات ہم پہلے ہی تیل اور گندم کی بڑھتی قیمتوں کی صورت میں برداشت کررہے ہیں، اگر یہ اسی طرح جاری رہا تو یہ صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم ڈیڑھ ارب آبادی کی حیثیت سے اپنی قوت کو نظرانداز کرتے آئے ہیں، ہمیں خود پر اعمتماد نہیں ہے اس لیے اپنے مسائل کے حل کے لیے ہم دوسروں کی جانب دیکھتے ہیں، دنیا جس جانب بڑھ رہی ہے یہ بڑا ضروری ہے کہ ہم اب متحد ہوجائیں اور کسی تنازع یا بلاک کا حصہ بننے کی بجائے ایک واحد بلاک بن کر بنیادی ایشوز پر مل کر آواز اٹھائیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں بہت خوش ہوں کہ پہلی بار عالمی سطح ہر یہ ادراک کیا جارہا ہے کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقیت ہے اور اس حوالے سیاقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ او آئی سی اجلاس پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ہورہا ہے ہے، او آئی سی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی آمد پر ان کا مشکور ہوں۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن قرار دیا، اس کے لیے 15مارچ کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ اس روز نیوزی لینڈ میں ایک شخص نے مسجد میں گھس کر مسلمانوں کو قتل کیا تھا۔

اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ اس کے نزدیک تمام مسلمان دہشتگرد ہیں۔انہوں نے کہا کہ مذہب کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں اسلاموفوبیا بڑھتے ہوئے دیکھا، اسلام اور مسلمانوں کو دہشتگردی سے جوڑ دیا گیا، بہت معذرت کے ساتھ میں کہوں گا کہ اس کے ذمہ دار ہم خود تھے کیونکہ اس بیانیے کا توڑ کرنے کے لیے ہم نے اقدامات نہیں اٹھائے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک کو اس حوالے سے آواز بلند کرنی چاہیے تھی، دنیا کو یہ سمجھانے کی ضرورت تھی کہ دہشتگردی کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ روشن خیالی کا نعرہ محض مغرب کو مطمئن کرنے کیلئے لگایا گیا، اسلام تو صرف ایک ہی ہے تاہم دنیا کی ہرکمینوٹی میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملہ کرنے والا بھی ان کے معاشرے کا ہی ایک حصہ تھا مگر دنیا کی کسی اور کمیونٹی کو اس طرح دہشتگردی سے نہیں جوڑا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک کی جانب سے اس بیانیے کا جواب نہ دینے کا نتیجہ مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو بھگتنا پڑا، نائن الیون کے بعد غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے مشکل ترین دور شروع ہوا۔انہوں نے کہا کہ 1989 میں ایک گستاخانہ کتاب سلمان رشدی نے لکھی، اس واقعے کے بعد بھی مسلم ممالک مغرب کو توہین رسالت سے متعلق مسلمانوں کی حساسیت سے آگاہ نہیں کرسکے۔

انہوں نے کہاکہ مغربی ممالک میں مذہب کو اس طرح نہیں سمجھا جاتا جس طرح مسلم ممالک میں مذہب کو اہمیت حاصل ہے، اس لیے مغربی ممالک توہین اور گستاخی سے متعلق مسلمانوں کے جذبات نہیں سمجھ سکتے۔انہوں نے کہا کہ اسی لیے ہر تھوڑے عرصے بعد مسلم ممالک کی جانب سے گستاخیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں آنے والے ردعمل سے اسلاموفوبیا بڑھتا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میں بہت خوش ہوں کہ پہلی بار عالمی سطح ہر یہ ادراک کیا جارہا ہے کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقیت ہے اور اس حوالے سیاقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، اب ہم دنیا کو یہ باورکرانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے کہ گستاخی اور توہین آمیز واقعات سے کس طرح ہمارے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہیں جو اسلام کے نام پر قائم ہوا، قرارداد مقاصد کے مطابق پاکستان کو مدینہ کے طرز پر اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے۔

ویزراعظم نے کہا کہ افسوس ہے کہ مسلمان خود مدینہ کی ریاست کے ماڈل سے آگاہ نہیں ہیں، میں لوگوں سے کہتا ہوں کے ایک عظیم انقلاب کے نتیجے میں بننے والی ریاست مدینہ کے ماڈل کو سمجھیں۔انہوں نے کہا کہ حضرت محمد ۖ کو قرآن میں رحمت اللعالمین کا لقب دیا گیا، حضرت محمدۖ کی دنیا میں آمد کا مقصد انسانیت کو متحد کرنا تھا، انہوں نے ایک جدید نظام تشکیل دیا۔

انہوں نے کہا کہ میری بیٹی بھی جرم کرے تو وہ بھی سزا کی حقدار ہوگی۔انہوں نے کہا کہ آج دنیا بھر کے پسماندہ ممالک پر نظرڈالیں، ان تمام ممالک میں یکساں بات یہی ہوگی کہ وہاں امیر اور غریب کے لیے علیحدہ قانون ہے۔انہوںنے کہاکہ اسلامی تاریخ کے پہلے دو خلیفہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے، ان میں سے ایک خلیفہ ایک یہودی سے مقدمہ ہار گئے تھے کیونکہ قاضی نے خلیفہ کے بیٹے کی گواہی قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست میں اقلیتوں کے برابرحقوق تھے، قانون کی نظر میں سب برابر تھے، ایک عام شہری ریاست کے سربراہ کے خلاف مقدمہ جیت جاتا تھا، یہ دنیا کی پہلی فلاحی ریاست تھی جہاں انسانیت کا احساس تھا، کمزوروں، غریبوں اور بزرگوں کو سہارا دیا جاتا تھا۔انہوں نے کہا کہ آج میں مغربی ممالک کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ وہاں فلاحی ریاست کا جو تصور موجود ہے وہ مسلم ممالک میں کہیں نہیں نظر آتا۔

ہمارے یہاں انسانوں کو وہ حقوق نہیں مل رہے جو مغربی ممالک میں جانوروں کو حاصل ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست میں خواتین کو پہلی باروراثت میں حق ملا، یورپی ممالک کو خواتین کو یہ حقوق فراہم کرنے میں کئی برس لگ گئے۔انہوں نے کہا کہ آج افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں 70 فیصد خواتین کو وراثت میں حق نہیں دیا جارہا تھا اس لیے ہمیں اس کے لیے خصوصی بل پاس کروانے پڑے۔

انہوں نے کہا کہ او آئی سی کا ایک مقصد اسلامی اقدار کو محفوظ کرنا تھا جنہیں آج سب سے زیادہ خطردرپیش ہے، میں جب وزیراعظم بنا تو مجھے بتایا گیا کہ پاکستان میں جنسی جرائم سب سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں، ہم نے اس کی وجوہات تلاش کیں تو پتا چلا کہ موبائل پر باآسانی دستیاب پورنوگرافی اس کی اہم وجہ ہے، اس لیے ہمیں اس پیلٹ فارم کے ذریعے اس چیلنج کا بھی مقابلہ کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا مذہب اسلام خاندانی نظام کو تحفظ فراہم کرتا ہے، ہمارے یہاں والدین اور اساتذہ کا خصوصی احترام کیا جاتا ہے لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والا کلچر ان اقدار کو متاثر کررہا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے علما پر مشتمل رحمت اللعالمین اتھارٹی اسی لیے بنائی ہے تاکہ اس چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکے۔

موضوعات:



کالم



خوشحالی کے چھ اصول


وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…

امیدوں کے جال میں پھنسا عمران خان

ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی…

حرام خوری کی سزا

تائیوان کی کمپنی گولڈ اپالو نے 1995ء میں پیجر کے…

مولانا یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ مینجمنٹ

مولانا فضل الرحمن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں…

ایس آئی ایف سی کے لیےہنی سنگھ کا میسج

ہنی سنگھ انڈیا کے مشہور پنجابی سنگر اور ریپر…

راشد نواز جیسی خلائی مخلوق

آپ اعجاز صاحب کی مثال لیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!(آخری حصہ)

لی کو آن یو اہل ترین اور بہترین لوگ سلیکٹ کرتا…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!

میرے پاس چند دن قبل سنگا پور سے ایک بزنس مین آئے‘…

سٹارٹ اِٹ نائو

ہماری کلاس میں 19 طالب علم تھے‘ ہم دنیا کے مختلف…

میڈم چیف منسٹر اور پروفیسر اطہر محبوب

میں نے 1991ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے…