اسلام آباد (آن لائن) پی ڈی ایم اور متحدہ اپوزیشن کاشاہراہ دستور، اسلام آباد میں مشترکہ جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے 23 مارچ کو پی ڈی ایم نے جس لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا وہ ہو گا، پیپلز پارٹی اور عوامی پارٹی کو لانگ مارچ میں شرکت کی دعوت دے رہے ہیں،پورے ملک سے بیک وقت لانگ مارچ کے قافلے اسلام آباد کیلئے روانہ ہوں گے، اپوزیشن ارکان تحریک عدم اعتماد تک اسلام آباد رہیں گے،
ہمت ہے تو حکومت172ارکان پورے کرے۔تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے اپوزیشن کی اعلیٰ قیادت کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پورے ملک سے لوگ اسلام آباد پہنچیں، لیگی صدر نے خود پیپلزپارٹی کے وفد کا استقبال کیا۔ پیپلز پارٹی کے وفد میں آصف زرداری، بلاول بھٹو، یوسف گیلانی، شیری رحمان اور دیگر شریک ہوئے۔ حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی عشائیے میں شریک ہوئے، مولانا عبدالغفور حیدری، اکرم دْرانی و دیگر بھی ہمراہ تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر خان ہوتی، ایمل خان ولی، بی این پی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل، جمعیت اہلحدیث کے ساجد میر، شفیق ترین، مبیر کبیر اور شاہاحمد نورانی نے بھی شرکت کی اجلاس میں ملک کی مجموعی صورتحال اور تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے تفصیلی مشاورت ہوئی اور اہم فیصلوں کو حتمی شکل دی گئی۔ اجلاس نے واضح کیا کہ تاریخی مہنگائی،غربت، بے روزگاری، معاشی تباہی کے ستائے پاکستان کے عوام کو اس ظالم، کرپٹ، نالائق اور نااہل حکومت سے نجات دلانے کے لئے متحدہ اپوزیشن نے آئین کے راستے پر چلتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرائی ہے جس نے پاکستان کی معاشی خود مختاری کا سودا کیا،
قومی مفادات کو خطرات سے دوچار کیا اور خارجہ محاذ پر پے درپے ناکامیوں سے اہم اور نازک ملکی مفادات کو مجروح کیا۔ قریبی اور بااعتماد دوست ممالک کو ناراض کرکے دنیا میں پاکستان کو تنہا کیا۔ غیرقانونی طورپر بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر کے مسئلہ کو گہری چوٹ پہنچائی، کشمیریوں و پاکستانیوں کی امنگوں اور مفادات کی ترجمانی ودفاع میں بدترین طور پر ناکام رہی۔ وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی پیش کردہ
تحریک عدم اعتمادقومی مفادات کی امین اور 22 کروڑ عوام کی امنگوں وخواہشات کی مظہر ہے۔ اس آئینی اقدام کا دستوری، قانونی، پارلیمانی اور جمہوری دائرے میں رہ کر سامنا کرنے کے بجائے نااہل وزیراعظم اور ان کی حکومت آئین شکنی اور فسادکی راہ اپنا چکی ہے۔ ارکان قومی اسمبلی کو ایوان میں آنے سے روکنے کی کھلے عام دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ڈرانے، دھمکانے اور دبا? میں لانے کے ہتھکنڈے کے طور پر ڈی چوک پر جلسہ کرنے کا
حکومت اعلان کرچکی ہے۔ متحدہ اپوزیشن واضح کرتی ہے کہ حکومت فساد، انتشار اور تصادم کی راہ اختیار نہ کرے۔آئین کی باغی نہ بنے۔ آئین کے تحت ارکان قومی اسمبلی کا بنیادی فرض اور حق ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنے دستوری، جمہوری اور پارلیمانی فرائض انجام دیں۔ان کی نقل وحرکت پر کوئی قدغن عائد نہیں کی جاسکتی، نہ ہی انہیں رائے دہی سے روکا جاسکتا ہے۔ انہیں ان ذمہ داریوں سے روکنا دستور پاکستان کو سبوتاڑ کرنے کے
مترادف ہے جس کی سزا آئین کے آرٹیکل 6 میں واضح طور پر درج ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے پاکستان پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم کے اعلان کردہ نظام الاوقات کے مطابق 23 مارچ کو منعقد ہونے والے جلسہ عام میں شرکت کی دعوت دی جسے پی پی پی قیادت نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلیا اور اس جلسہ میں بھرپور شرکت کی یقین دہانی کرائی۔ اجلاس نے قرار دیا کہ شاہراہ دستور پر
تاریخی جلسے کے ذریعے پارلیمنٹ، آئین اور جمہوریت کے ساتھ بھرپور یک جہتی کا اظہار کیاجائے گا۔ اپوزیشن کے اس جلسے کے موقع پر فسطائی، آمرانہ اور آئین وقانون کے منافی حکومتی اقدامات کے سبب کوئی ناخوشگوار صورتحال پیدا ہوئی تو اس کا ذمہ دار اکثریت کھو دینے والا وزیراعظم اور اس کی حکومت ہوگی۔ اجلاس ارکان قومی اسمبلی کو مجمع سے گزر کر جانے اور آنے کے حکومتی بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے
ارکان قومی اسمبلی کوبراہ راست دھمکی قرار دیتا ہے۔ بھرے جلسوں میں سیاسی مخالفین اور ملک کی مرکزی سیاسی جماعتوں کے قومی راہنماؤں کو بندوق سے نشانہ بنانے کی نہ صرف نااہل وزیراعظم خود دھمکیاں دے رہا ہے بلکہ اس کے وزیر خودکش بمبار بن کر سیاسی مخالفین پر حملہ کرنے کے اعلانات کررہے ہیں۔ یہ رویہ ملک میں انارکی پھیلانے اور خانہ جنگی کرانے کی مذموم سازش ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ خدانخواستہ
کسی قائد، راہنما یا پارٹی رکن کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کے مجرم نااہل وزیراعظم، وفاقی وزراء اور یہ حکومت ہوگی۔ان اعلانات سے ثابت ہوگیا ہے کہ حکومت ہار چکی ہے، 172 ارکان کی تعداد پورا نہیں کرسکتی۔ اس لئے ارکان قومی اسمبلی کو پولیس اور دیگر اداروں کی غیرقانونی طاقت کے ذریعے روکنا چاہتی ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ حکومت آرٹیکل 6 کی مجرم بن رہی ہے۔آئین شکنوں کو آئین میں دی سزا بھگتنے کے لئے تیار رہنا
ہوگا۔ اجلاس تنبیہ کرتا ہے کہ آئین پاکستان سپیکر کو متعین اور واضح مدت میں اجلاس بلانے کا پابند کرتا ہے۔ ریکوزیشن جمع ہونے کے بعد 14 دن میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا اور کل 7 ایام کے اندر عدم اعتماد کی تحریک پر ایوان میں رائے شماری کرانا سپیکر کا آئینی فرض ہے جس کی خلاف ورزی اور انحراف سے سپیکر اپنے منصب اور آئین وقانون سے غداری کے مرتکب ٹھہریں گے۔ اجلاس نے خبردار کیا کہ پارلیمانی قواعدوضوابط
کے رول 37(8) کے تحت طلب کردہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہلا ایجنڈا آئیٹم ’عدم اعتماد کی قرارداد‘ کو پیش کرنا ہے۔ سپیکر نے اگر اس سے انحراف کیا تو یہ آئین وقواعد کی صریحاً خلاف ورزی ہوگی۔ متحدہ اپوزیشن الیکشن کمشن آف پاکستان سے پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کا فوری فیصلہ دے جس میں سٹیٹ بینک کے مصدقہ ریکارڈ سے عمران خان نیازی اور ان کی جماعت مجرم ثابت ہوچکی ہے۔ پہلے ہی سات سال
ہوچکے ہیں۔ لہذا قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے 15 مارچ 2022 کو اس مقدمے کی سماعت پر فیصلہ صاد ر کیاجائے۔ متحدہ اپوزیشن کے قائدین نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف پراپنے بھرپور اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ نمبرز پورے ہوچکے ہیں، آگے بڑھیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کی قیادت میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے فیصلہ کن قدم اٹھانے کے لئے تیار
ہیں۔اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور قائد حزب اختلاف محمد شہبازشریف، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، سابق صدر آصف علی زرداری کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹوزرداری، اپوزیشن جماعتوں کے قائدین ایمل ولی خان، امیر حیدر خان ہوتی، سردار اختر جان مینگل، محسن داوڑ، علامہ ساجد میر، صاحبزادہ اویس نورانی اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے
راہنماؤں نے وفود کے ہمراہ شرکت کی۔ امیر کبیر نے نیشل پارٹی جبکہ سینیٹرسردار شفیق ترین نے پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کی نمائندگی کی۔۔اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ متحدہ اپوزیشن کے قائدین کا مشترکہ اجلاس ہوا، اجلاس کی میزبانی لیگی صدر شہباز شریف نے کی۔ ان کا کہنا تھا کہ کارکن 23 مارچ کو اسلام آباد کی طرف روانہ ہو جائیں۔ 23 مارچ کو پی ڈی ایم نے
جس لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا وہ ہو گا، پیپلز پارٹی اور عوامی پارٹی کو لانگ مارچ میں شرکت کی دعوت دے رہے ہیں۔ پورے ملک سے بیک وقت لانگ مارچ کے قافلے اسلام آباد کیلئے روانہ ہوں گے، اپوزیشن ارکان تحریک عدم اعتماد تک اسلام آباد رہیں گے، ہمت ہے تو حکومت172ارکان پورے کرے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا لانگ مارچ 24مارچ تک اسلام آباد پہنچ جائے گا، لانگ مارچ پہنچنے تک کتنے دن اسلام آباد رہنا اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ہماری
اسٹرٹیٹجی پچھلے لانگ مارچ سے مختلف ہو گی، ہم بہت کچھ کرنے جا رہے ہیں، چھٹی کا دودھ یاد دلادیں گے، اس حکومت کو تسلیم نہیں کرتے، ڈنڈے کا جواب ڈنڈے اور پتھرکا جواب پتھرسے دیں گے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پیپلزپارٹی،عوامی نیشنل پارٹی کو لانگ مارچ میں شرکت کی دعوت دے چکے ہیں، یقین ہے وہ دعوت کو قبول کرنے کا اعلان بھی کر دیں گے۔پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک قومی امنگوں کی امین ہے،
جعلی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد عوام کی امنگوں کا مظہرہے۔ جمہوری دائرے کے بجائے حکومت فساد کی راہ اپنا چکی ہے، اراکین کوکھلے عام دھمکیاں دی جارہی ہے، حکومت ڈی چوک میں جلسہ کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔ ہم ان کوبتانا چاہتے ہیں پاکستان تمہارا نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان سپیکر کو متعین اور واضح مدت میں اجلاس بلانے کا پابند کرتا ہے۔ اجلاس نے خبردار کیا اجلاس میں پہلا ایجنڈا عدم اعتماد تحریک پیش کرنا ہے، اگر سپیکرنے انحراف کیا تو آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔انہوں نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس کا فوری فیصلہ کیا جائے، پی ٹی آئی مجرم ثابت ہو چکی ہے، پندرہ مارچ کومقدمے کی سماعت پرفیصلہ صادرکیا جائے۔