پیر‬‮ ، 18 اگست‬‮ 2025 

عمران خان کیخلاف عدم اعتماد اپوزیشن کے اہم رکن نے پلان بتادیا

datetime 15  فروری‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اپوزیشن کا فیصلہ بے وجہ نہیں ہے کیونکہ اہم اپوزیشن رہنمائوں کو بڑی امیدیں ہیں کہ معاملات ’’منصوبے‘‘ کے مطابق ہی طے پائیں گے، یہ اس منصوبے کو خفیہ رکھا جارہا ہے اور صرف چند لوگوں کو ہی اس کا علم ہے۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق ایک باخبر ذریعے نے بتایا ہے کہ توقع

ہے کہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے 20؍ سے 30؍ الیکٹیبلز اپوزیشن کا ساتھ دیں گے جبکہ حکومتی اتحادیوں بشمول ق لیگ اور ایم کیو ایم کے ساتھ جاری رابطے منصوبے کا حصہ ہیں۔ذریعے نے کہا کہ آئندہ دنوں میں اپوزیشن کی کوئی اہم شخصیت اگر جہانگیر ترین سے ملاقات کرے تو اس پر حیران نہیں ہونا چاہئے۔ بظاہر اپوزیشن اور حکومتی اتحادیوں کے درمیان رابطوں کا کوئی ثمر نہیں ملا لیکن ذریعے کا اصرار ہے کہ اپوزیشن کے پُرامید رہنما، جن میں شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری شامل ہیں، سمجھتے ہیں کہ ق لیگ اور ایم کیو ایم ضرورت پڑنے پر اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔ذریعے نے کہا کہ اپوزیشن میں ’’پر امید شخصیات‘‘ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کیخلاف آئندہ چند ہفتوں میں عدم اعتماد کی تحریک آجائے گی۔اس نمائندے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنے والا ذریعہ اُن افراد میں شامل ہے جنہیں ’’منصوبے‘‘ کا علم ہے لیکن انہیں یقین نہیں کہ اہم اپوزیشن رہنمائوں کو دی جانے والی امیدوں میں دم ہے یا نہیں، اور یہ بھی کہ کہیں یہ امیدیں کسی بڑے کھیل کا حصہ تو نہیں۔

ذریعے کے مطابق، چند اپوزیشن رہنمائوں کو اس قدر یقین ہے کہ حالات اُن کی امیدوں کے مطابق سامنے آئیں گے، حتیٰ کہ اُن میں سے ایک نے عمران خان کے متبادل کا نام بھی پیش کردیا۔ پر امید شخصیات ق لیگ اور ایم کیو ایم کے ساتھ ہونے والی اپنی حالیہ بات چیت سے مایوس ہیں اور نہ ہی ان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ان کی امید انہیں یقین دلاتی ہے کہ پی ٹی آئی کے اتحادی

درست وقت پر اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔ ایک مرتبہ پھر صورتحال بڑی مشکل نظر آتی ہے لیکن پر امید شخصیات کو توقع ہے کہ پی ٹی آئی کے الیکٹیبلز اُن کا ساتھ دیں گے اور وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک رواں ماہ کے آخر تک پیش کر دی جائے گی۔حال ہی میں آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان زیادہ سرگرم ہوگئے اور ایک دوسرے کے ساتھ اور ساتھ ہی پی ٹی

آئی کے اتحادیوں کے ساتھ ملاقات بھی کی۔ جس بات نے سب کو حیران کیا وہ پی ڈی ایم کا وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ تھی وہ بھی اُس وقت جب اپوزیشن کے پاس ارکان کی مطلوبہ تعداد نہیں تھی۔کہا جاتا ہے کہ آئندہ چند ہفتے بہت اہم ہیں۔ صورتحال منصوبے کے مطابق تبدیل نہ ہوئی تو امکان ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کو نکال باہر کرنے کا اپوزیشن کا جوش و جذبہ مارچ کی آمد کے ساتھ ماند پڑ سکتا ہے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے 30؍ الیکٹیبلز اپوزیشن کی امیدوں پر پوُرا اترے تو یہ لوگ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



وین لو۔۔ژی تھرون


وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…