منگل‬‮ ، 16 ستمبر‬‮ 2025 

چین کا جدید ’’بْھوت شہر‘‘؛ جہاں کی عمارتیں شان دار مگر مکین ندارد

datetime 11  اگست‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

منگولیا(نیوز ڈیسک)چین کے صوبے منگولیا کا ضلع اورڈوس ایک زمانے میں محض چھوٹا سا قصبہ تھا۔ 2003 میں یہاں کوئلے اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے۔ یہ ذخائر وسعت کے لحاظ سے چین کے چھٹے بڑے ذخائر تھے۔کوئلے، گیس کی دریافت کے بعد قصبے کی قسمت بدلنے لگی۔ یہاں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام شروع ہوئے۔ سرمایہ کاروں نے اس علاقے کا رخ کرلیا اور مقامی لوگوں کی قسمت کھل گئی۔ حکومت کو اندازہ تھا کہ چند ہی برس میں یہ علاقہ اور اورڈوس کی ترقی کا مرکز بن جائے گا۔ یہاں دوسرے علاقوں سے بھی بڑی تعداد میں لوگ روز کے سلسلے میں آئیں گے۔اس لیے حکومت نے کوئلے اور گیس کی دولت سے مالا مال ضلع کے ساتھ ایک جدید شہر بسانے کا فیصلہ کیا۔ دو ہی برس میں کانگا باشی کے نام سے ایک چھوٹا مگر جدید شہر تعمیر وجود میں ا?گیا اور اسے ضلع کا درجہ بھی دے دیاگیا۔ کانگا باشی میں بلند و بالا عمارات اور کشادہ سڑکیں تعمیر کی گئیں۔ گیس و بجلی اور پانی سمیت تمام بنیادی سہولیات فراہم کی گئیں۔ تعلیمی ادارے اور اسپتال تعمیر کیے گئے۔غرض ہر لحاظ سے کانگاباشی کو تمام سہولیات سے آراستہ کیا گیا۔ حکومت نے دس لاکھ لوگوں کے لیے یہ شہر تعمیر کیا تھا مگر حیران کْن طور پر یہاں رہائش اختیار کرنے والوں کی تعداد چند سو بھی نہیں! کئی برس گزر جانے کے باوجود شہر کی عمارتیں اور مکانات خالی پڑے ہوئے ہیں۔ یہ سنسان شہر کسی ’’گھوسٹ سٹی‘‘ کا منظر پیش کرتا ہے جہاں سب کچھ موجود ہے بس مکین نہیں ہیں۔فی کس آمدنی کے لحاظ سے اورڈوس، شنگھائی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ اس لیے حکومت کو یقین تھا کہ نیا شہر بسانے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ یہاں کے دولت مند لوگ نئے شہر میں رہائش گاہیں خریدنے میں تامل سے کام نہیں لیں گے۔ اس حد تک حکومت کا اندازہ درست ثابت ہوا۔ کانگا باشی میں حکومت کی جانب سے تعمیر کردہ تمام اپارٹمنٹس اور مکانات فروخت ہوگئے مگر آباد نہیں ہوسکے۔خریداروں نے یہاں رہائش پذیر ہونا گوارا نہیں کیا جو حیران کن ہے۔ نئے شہر میں رہائش خریدنے والے بیشتر افراد کا تعلق اور ڈوس کی پرانی آبادی ہی سے ہے۔ وہاں پانی کی قلت ہے جب کہ کانگا باشی میں فراہمی آب کا معقول انتظام ہے۔مکانات خریدنے کے باوجود خود یہاں منتقل نہ ہونے کی ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ کانگاباشی، اورڈوس سے 25 کلو میٹر کے فاصلے پرتعمیر کیا گیا ہے، اورڈوس کی آبادی کان کنی اور اس سے جڑے پیشوں سے وابستہ ہے۔کوئلے کی کانیں اور ڈوس میں ہیں۔ اگر وہ کانگا باشی منتقل ہوتے ہیں تو انھیں روزانہ آنے جانے میں50کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔ شاید اسی لیے وہ نئے شہر میں منتقل ہونے سے گریزاں ہیں۔ حکومت کانگا باشی کو آباد کرنے کے لیے کوششیں کررہی ہے مگر اس کے تمام اقدامات ابھی تک مالکان کو نئے گھروں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرسکے ہیں اور شہر اسی طرح سائیں سائیں کر رہا ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



Self Sabotage


ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…