اسلام آباد(این این آئی)تقریباً 22 برسوں کی جدوجہد کے بعد، خیبرپختونخواہ اسمبلی نے گزشتہ سال 5 جنوری کو تاریخی گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) ایکٹ منظور کیا۔ اس قانون کی منظوری کے بعد صوبے بھر میں گھریلو تشدد کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا۔ جسمانی اور جنسی تشدد کے علاوہ، قانون نے معاشی اور نفسیاتی زیادتیوں کو بھی گھریلو تشدد قرار دیا۔ تاہم، کے پی کے
گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) ایکٹ کی منظوری کے ایک سال بعد، قانون کے صوبے بھر میں نفاذ کا ابھی بھی انتظار کیا جا رہا ہے۔ پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس (پی۔وائی۔سی۔اے) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اریبہ شاہد نے کہا،اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون کی منظوری بذات خود ایک بہت بڑا کارنامہ ہے لیکن اس پر عمل درآمد کے بغیر محض قانون کے ہونے یا نہ ہینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ماضی میں ہم نے سماجی شعبے کے قوانین، جیسا کہ آرٹیکل25۔A، جو ہر پاکستانی بچے کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کا وعدہ کرتا ہے، کو دیکھا ہے۔بارہ سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اس قانون کا نفاذ نہیں ہو پایا۔ ہمیں خدشہ ہے کہ کے ۔پی ڈومیسٹک وائلنس (روک تھام اور تحفظ) ایکٹ کا بھی ایسا ہی انجام نہ ہو۔ پی ٹی آئی رہنماء اور اراکین خیبر پختونخوا اسمبلی، مدیحہ نثار اور عائشہ بانو نے ایک ویب شو میں اپنے حالیہ اینٹرویز کے دوران بتایا کہ گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) ایکٹ کے قواعد کا مسودہ تیار کیا جا رہا ہے اور وہ اگلے چند ماہ میں اس کے صوبے بھر میں نفاذ کے بارے میں پر امید ہیں۔ پی۔وائی۔سی۔اے اس وقت گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) ایکٹ کے بارے میں آگاہی مہم چلا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس قانون کی مختلف دفعات سے آگاہ ہوں سکیں۔ پی وائی سی اے کے سینئر پروگرام آفیسرہشام خان کے مطابق،ہمارا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ صوبے بھر کی خواتین اور لڑکیاں یہ سمجھ پائیں کہ قانون ان کے تحفظ کے لیے کیسے بنایا گیا ہے اور اس کے تحت انہیں گھروں کی چار دیواری کے اندر ہر قسم کے تشدد سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا دفعات شامل کی گئی ہیں۔