جمعرات‬‮ ، 21 اگست‬‮ 2025 

رانا شمیم کیس، تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

datetime 28  دسمبر‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق توہین عدالت کے کیس میں7جنوری کو تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے فریقین سے دلائل طلب کرلیے۔ گذشتہ روز ( منگل) کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت میں زیرسماعت سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کا بیان حلفی کی شائع ہونے

پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت کے دوران گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم، انصار عباسی، اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان،لطیف آفریدی ایڈووکیٹ، سابق وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل امجد علی شاہ اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے ۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ میں بار بار کہہ رہا ہوں یہ توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہے میرا اور عدالت کا احتساب ہونا چاہیے جس نے بھی اس عدالت سے رجوع کیا اسکو ریلیف ملا اس بیان حلفی کے بینفشری کو بھی اس عدالت سے ریلیف ملا اس عدالت کا کنسرن صرف اپنے آپکے ساتھ ہے اس عدالت کی آزادی کے لیے آپکا ہونا بہت ضروری ہے چیف جسٹس نے کہاکہ یہ توہین عدالت کیس نہیں اسلام آبادہائیکورٹ کے احتساب کا مقدمہ ہے،بیانیہ بنایا گیا کہ یہ عدالت سمجھوتہ کیے ہوئے ہے،عدالت اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کررہی ہے،عدالت نے رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے عدالت میں پیش کیے گئے اصل بیان حلفی کا پارسل کھولنے کی ہدایت کی اٹارنی جنرل نے کہاکہ بیان حلفی جس نے ریکارڈکرایا اس کو ہی یہ سربمہر لفافہ کھولنا چاہیے،چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت چاہتی ہے کہ یہ آپ کے سامنے اوپن ہو اور آپ دیکھ لیں کہ اس میں کیا ہے؟،یہ ہمیں کوریئر کے ذریعے ملا اس میں کہیں کسی اور کا خط نہ ہو جس پر رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے کہاکہ میں اصل بیان حلفی کاسربمہرلفافہ نہیں کھولوں گا عدالت نے منگوایاہے وہ ہی اوپن کرے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ رانا شمیم نے بتایاکہ کس کے سامنے بیان حلفی ریکارڈ کرایا ہمیں بھی بتانا ہے کہ بیان حلفی کس کے لیک کیا۔عدالت نے کہا تھا کہ سفارتخانے کے ذریعے بھجوائیں انہوں نے کوریئر سروس کے ذریعے بھجوایا دیا چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کے کلائنٹ کو یہ لفافہ کھولنے میں کیوں ہچکچاہٹ ہے؟ آپ کے کلائنٹ نے یہ کوریئر سے بھجوایا اب کھولنے میں کیوں ہچکچا رہے ہیں؟رانا شمیم کو آرڈر کیا تھا کہ اصل بیان حلفی عدالت میں پیش کریں کیاپتا اس سربمہرلفافے میں کیاہو جس پر لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ اس سربمہر لفافے میں کوئی Love Letter نہیں ہوگا رانا شمیم کے نواسے نے ڈی ایچ ایل کوریئر سروس کے ذریعے بیان حلفی بھجوایا،چیف جسٹس نے کہاکہ وہ سیل لفافہ کدھر ہے اسے لطیف آفریدی کے حوالے کریں لطیف آفریدی اس لفافہ کو کھولنا نہیں چاہتے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ 7 دسمبر کو حکم دیا تھا کہ

رانا شمیم اصل بیان حلفی عدالت پیش کریں،عدالتی حکم کے مطابق اس لفافہ کو صرف رانا شمیم ہی کھولیں گے،رانا شمیم بتائیں گے کہ بیان حلفی کسطرح لیک ہوا، چیف جسٹس نے کہاکہ ایسا کرتے ہیں سیل لفافہ نہ آپ کھولیں نہ رانا شمیم کھولیں،ایڈووکیٹ جنرل کوکہتے ہیں وہ اس سیل شدہ لفافہ کو کھولیں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس سیل شدہ لفافہ پر پتہ نہیں کس کس کے فنگر پرنٹس آجائیں گے، رانا شمیم ہی اس سیل شدہ لفافے کو کھولیں،چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت نے کہا تھا بیان حلفی رانا شمیم خود پیش کریں،عدالت نے

یہ نہیں کہا تھا کہ سیل شدہ لفافہ بھیجیں،آپ نے کہا تھا کورئیر سروس سے بھیجا وہ انہی کا سیل شدہ لفافہ ہے، یہ پہلی کورئیر سروس کی ڈلیوری تھی جسے میں نے وصول کیا،چیف جسٹس نے رانا شمیم نے سربمہرلفافہ کھولنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ خیال کریں کہ لفافہ اوپن کرتے وقت بیان حلفی کو کوئی نقصان نہ پہنچے، یہ آپ کی امانت ہے جو ہم تک پہنچ گئی ہے،عدالتی ہدایت پر رانا شمیم نے

لفافہ کھول دیا، اٹارنی جنرل نے کہاکہ رانا شمیم نے جواب دیا کہ انہوں نے سیل شدہ لفافہ اپنے نواسے کو دیا، کورئیر سروس کو دینے سے پہلے یہ ایک اوپن بیان حلفی تھا،چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ رانا شمیم کیا یہ بیان حلفی آپکا ہی ہے اور آپ نے سیل کیا تھا،جس پر رانا شمیم نے جواب دیاکہ جی یہ میرا ہی بیان حلفی اور لفافہ ہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ بیان حلفی میں بھی دیکھوں فونٹ تو اسکا callibary ہے،اس کی کاپی ہمیں مہیا کی جائے،چیف جسٹس نے کہاکہ اس بیان حلفی کو اب ہم کہاں رکھیں

، اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ اب آپ اپنی ہی تحویل میں رکھیں گے،وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے کہاکہ اٹارنی جنرل کے اعتراضات ہمیں سمجھ نہیں آرہے، چیف جسٹس نے کہاکہ اٹارنی جنرل اس لیے کہہ رہے ہیں کہ رانا شمیم نے جو جواب جمع کرایا اس میں سارا بوجھ انصار عباسی صاحب پر ڈال رہے تھے، انہوں نے کہا تھا کہ یہ سیل تھا انہوں نے کسی کے ساتھ شئیر نہیں کیا،سارے ایشوز یہ ہیں کہ

تین سال بعد ایک چیز آئی،جس جج کا نام تھا وہ چھٹی پر تھے بنچ میں بھی نہیں تھے،میں بھی بعد کے بنچ میں تھا تو کیا میں کمپرومائز ہوا ہوں،وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے کہاکہ اب پروسیڈنگ آگے بڑھنی چاہیں جنکے نام ہیں وہ جوابی بیان حلفی جمع کرائیں،چیف جسٹس نے کہاکہ اگر پاکستان بار کونسل یہ کہہ رہی ہے جو بیان حلفی لکھا ہے وہ درست ہے تو آپ اس عدالت کے ہر جج پر شک کر رہے ہیں،اس بیان حلفی نے اس عدالت کے تمام ججز کو مشکوک بنا دیا ہے،عدالت نے بیان حلفی کو دوبارہ سیل کرنے

کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بیان حلفی نے ہائیکورٹ کے جج، بینچ اور مجھ پر الزامات عائد کیے گئے،کوشش کی جارہی ہے کہ پوری اسلام آبادہائیکورٹ کو متنازعہ بنایا جائے،امجد شاہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ پاکستان بار کونسل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج پر کوئی شک نہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ بیان حلفی نے پوری اسلام آباد ہائیکورٹ کو مشکوک بنادیا،بیان حلفی کا میاں ثاقب نثار سے کوئی تعلق نہیں،

اس سے جو کرنا ہے کریں،عدالت فریقین پر توہین عدالت کی فردجرم کیوں عائد نہ کرے ؟،لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ رانا شمیم کا بیان حلفی ذاتی دستاویز تھی لیک نہیں کیا،رانا شمیم کبھی توہین عدالت نہیں کرنا چاہتے تھے، چیف جسٹس نے کہاکہ کیا رانا شمیم نے انصار عباسی یا نوٹری پبلک کو ذاتی چیز پبلک کرنے پر نوٹس بھیجا ؟، وکیل نے کہاکہ توہین عدالت کیس کی وجہ سے ابھی تک انصار عباسی اور نوٹری پبلک کیخلاف کاروائی نہیں کی،چیف جسٹس نے کہاکہ اس بیان حلفی سے مستفید ہونے والا کون ہے ؟،وکیل نے کہاکہ مجھے معلوم نہیں بیان حلفی کیوں ریکارڈ کیا ؟ اور فائدہ کس کو ہوا ؟، رانا شمیم کو یہ

بھی اندازہ نہیں تھا کہ بیان حلفی سے اتنا بڑا طوفان کھڑا ہوگا،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ ثابت کردیں کہ یہ عدالت سمجھوتہ کیے ہوئے ہے؟، عدالت نے انصار عباسی سے استفسار کیاکہ کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں، آپ پر الزام لگایا گیا کہ آپ نے رانا شمیم کی ذاتی دستاویز شائع کی؟، انصار عباسی نے کہاکہ میں نے رانا شمیم کو بیان حلفی پڑھ کر سنایا انہوں نے تصدیق کی کہ مندرجات درست ہیں،رانا شمیم نے

مجھے نہیں بتایا کہ یہ دستاویز ذاتی اور ناقابل اشاعت ہے،عدالت نے ایڈیٹر عامر غوری سے استفسار کیاکہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟، چیف جسٹس نے کہاکہ کل کلبھوشن یادیو بیان حلفی دیدے کہ عدالت سمجھوتہ کیے ہوئے ہے؟یہ بیان حلفی بہت سنگین معاملہ ہے،کیا کوئی فریق عدالت میں کاروائی کو متاثر کرنے کے لیے بیان حلفی لکھے آپ شائع کردیں گے ؟،اٹارنی جنرل نے فریقین پر فردجرم عائد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہاکہ رانا شمیم اس کیس میں توہین عدالت کے مرتکب ہوئے،پچھلے تین دن سے ایک چیز آ رہی ہے

کہ بیان حلفی کسی کے آفس میں ریکارڈ کرایا گیا،حیرت انگیز طور پر اس بات کی کوئی تردید بھی نہیں آئی،لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ رانا شمیم ٹی وی انٹرویو میں اس بات کی تردید کر چکے ہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ ان حالات میں یہ عدالت کیوں نہ فرد جرم عائد کرے،لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ اس کے لیے تو میں ابھی تیار ہو کر نہیں آیا لیکن رانا شمیم تسلیم کرتے ہیں یہ بیان حلفی انہی کا ہے

،رانا شمیم کا کہنا ہے کہ یہ بیان حلفی انکا پرائیویٹ دستاویز ہے، رانا شمیم نے اپنی مرحومہ اہلیہ کیلئے بیان حلفی ریکارڈ کرایا،رانا شمیم نے اپنا بیان حلفی پریس کو لیک نہیں کیا، کسی کو دیا نہیں،رانا شمیم نے انصار عباسی کو بھی کہا کہ میرا پرائیویٹ دستاویز تھا آپکو کیسے ملا، چیف جسٹس نے کہاکہ اب تک رانا شمیم کو بھی معلوم ہو چکا ہو گا کہ یہ کتنا حساس معاملہ ہے،لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ

یہ اتنا حساس معاملہ نہیں ہے،اس عدالت میں فردوس عاشق اعوان اور سپریم کورٹ میں عمران خان توہین عدالت کیسز بنے تھے،عمران خان اور فردوس عاشق اعوان کے کیسز میں کیا ہوا،یہ کیسز آتے ہیں اور عدالت کو ان میں رحمدلی دکھانی ہوتی ہے،میں نے دو ہفتے بعد انہی ملزمان کو ریلیف دیا تھا،میرے خلاف وہ ریلیف دینے پر مہم چلائی گئی،یہاں تک کہا گیا میں نے لندن میں فلیٹ لیکر ریلیف دیا،

یہی بات کوئی بیان حلفی میں لکھ دیتا تو آپ اسے عوامی مفاد میں چھاپ دیتے ؟،انصارعباسی نے کہاکہ بیان حلفی کسی عام شخص نے نہیں سابق چیف جج گلگت نیدیا،چیف جسٹس نے کہاکہ انصار عباسی صاحب آپ کو پتہ ہے وہ چیف جج کیسے بنے؟،آپ کو پتہ ہے ضابطے کی کارروائی کے بغیر رانا شمیم کی تعیناتی ہوئی؟،چیف جسٹس پاکستان سے مشاورت کے بغیر تعیناتی ہوئی تھی،وزیراعظم نے خود کنٹریکٹ پر تین سال کیلئے انہیں لگا دیا تھا،عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ سماعت7جنوری تک کیلئے ملتوی کردی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



خوشی کا پہلا میوزیم


ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…