اسلام آباد(سپیشل رپورٹ)صابر مسیح بھی ان دو سرکاری ملازمین میں سے ایک ہیں جو مجرموں کو اپنی منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے سینکڑوں میلوں کا سفر کر کے مختلف جیلوں میں جاتے ہیںپاکستان کے شہر پشاور میں گذشتہ برس 16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد سے ملک بھر میں پھانسیوں پر لگائی جانے والی عارضی پابندی ہٹائے جانے کے بعد اب تک 200 افراد کو تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے جس میں شدت پسند بھی شامل ہیں۔ان شدت پسندوں کے مقابلے پر تختہ دار پر لٹکائے جانے والے افراد میں قتل کے مقدمات میں سزا پانے والے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔سب سے زیادہ پھانسیاں صوبے پنجاب میں دی گئی ہیں جن کی تعداد 170 سے زائد ہے۔ پھانسیوں پر عارضی پابندی ہٹائے جانے کے بعد مجرموں کو تختہ دار پر لٹکانے والے جلاد بھی ان دنوں کافی مصروف ہوگئے ہیں۔صوبہ پنجاب میں جیلوں کی تعداد 36 ہے جبکہ ان جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے۔اس صوبے میں ان پھانسیوں پر عمل درآمد کے لیے صرف دو افراد بھرتی کیے گئے ہیں جو مختلف جیلوں میں جاکر مجرموں کو تختہ دار پر لٹکاتے ہیں۔بعض جیلوں کے اہلکار سرکاری رقم دینا تو دور کی بات انھیں آنے جانے کا کرایہ بھی نہیں دیتے اور بعض اوقات تو اپنی جیب سے پیسے لگا کر سرکاری امور کی انجام دہی کے لیے جانا پڑتا ہے۔صابر مسیح بھی ان دو سرکاری ملازمین میں سے ایک ہیں جو مجرموں کو اپنی منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے سینکڑوں میلوں کا سفر کر کے مختلف جیلوں میں جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چند ماہ قبل صوبہ خیبر پختونخوا کی پولیس نے بھی ان کی خدمات حاصل کی تھیں جہاں وہ مقامی لوگوں کو تربیت دینے کے بعد واپس آگئے تھے۔صابر مسیح کا کہنا تھا کہ وہ سینکروں کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد اپنے سرکاری امور انجام دہی کے لیے جاتے ہیں تو انھیں ایک مجرم کو تختہ دار پر لٹکانے کے صرف 500 روپے دیے جاتے ہیں اور اگر ایک سے زیادہ افراد کو تختہ دار پر لٹکانا ہو تو پھر اس حساب سے پیسے بنتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ بعض جیلوں کے اہلکار سرکاری رقم دینا تو دور کی بات انھیں آنے جانے کا کرایہ بھی نہیں دیتے اور بعض اوقات تو اپنی جیب سے پیسے لگا کر سرکاری امور کی انجام دہی کے لیے جانا پڑتا ہے۔مرغے پالنے کے شوقین صابر مسیح کہتے ہیں کہ انھیں لوگوں کو تختہ دار پر لٹکانے سے نہ تو کبھی خوف آیا ہے اور نہ ہی ان امور کی انجام دہی میں کبھی شرمندگی ہوئی ہے لیکن اگر کوئی ان کے مرغے کو کچھ کہے تو یہ ان کی برداشت سے باہر ہے اور وہ اس کے لیے لڑنے مرنے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔صابر مسیح کا کہنا تھا کہ انھوں نے جی ایچ کیو اور سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر حملہ کرنے کے مقدمات میں موت کی سزا پانے والے مجرموں کو پھانسی دی جس میں ڈاکٹر عثمان بھی شامل ہیں۔انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث ڈاکٹر عثمان اور دیگر مجرمموں کو پھانسی دی جانی تھی تو ان کے چہرے پر ذرا بھر پشمانی اور ملال نہیں تھا بلکہ وہ خود چل کر تختہ دار پر پہنچے۔15,000 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے جلاد صابر مسیح کا کہنا تھا کہ اگرچہ انھیں ابھی تک شدت پسند تنظیموں کی جانب سے دھمکی تو نہیں ملی لیکن ان کی زندگی کو خطرات بدستور موجود ہیں اور اس بارے میں انھوں نے اعلی حکام کو بھی آگاہ کیا ہے۔مرغے پالنے کے شوقین صابر مسیح کہتے ہیں کہ انھیں لوگوں کو تختہ دار پر لٹکانے سے نہ تو کبھی خوف آیا ہے اور نہ ہی ان امور کی انجام دہی میں کبھی شرمندگی ہوئی ہے، لیکن اگر کوئی ان کے مرغے کو کچھ کہے تو یہ ان کی برداشت سے باہر ہے اور وہ اس کے لیے لڑنے مرنے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ لوگوں کو پھانسی پر چڑھانا ان کا خاندانی پیشہ ہے۔ صابر مسیح کے مطابق ان کے دادا قیام پاکستان سے پہلے انگریزوں کے دور میں بھی لوگوں کو پھانسیاں دیا کرتے تھے اور اس وقت اس کی اجرت 20 روپے ملا کرتی تھی۔ میرے والد کالا مسیح اور چچا تارا مسیح 40 سال تک اس شعبہ سے وابستہ رہے ہیں اور اس عرصے کے دوران وہ ہزاروں افراد کو تختہ دار پر لٹکا چکے ہیں۔تارا مسیح کے بارے میں مشہور ہے کہ انھوں نے سابق فوجی صدر ضیا الحق کے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تھی۔مجرموں کو پھانسی دینے کے طریق کار کے بارے میں صابر مسیح کا کہنا ہے کہ پھانسی لگنے سے ایک دن پہلے مجرم کا کپڑے اتار کر وزن کیا جاتا ہے اور وزن کے مطابق مجرم کے گلے میں ڈالنے کے لیے رسہ تیار کیا جاتا ہے۔انھوں نے کہا کہ پھانسی سے پہلے مجرم کو کالے کپڑے پہنائے جاتے ہیں جو اس کی موت کے بعد اتار لیے جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کم وزن والے کے لیے لمبا جبکہ زیادہ وزن والے مجرم کے لیے چھوٹا رسہ تیار کیا جاتا ہے۔جلاد کے مطابق تختہ دار پر چڑھانے کے بعد جب نیچے سے تختہ کھینچ لیا جاتا ہے توکم وزن والے مجرم کا دم نکلنے میں آٹھ سے دس سیکنڈ لگتے ہیں جبکہ بھاری بھرکم مجرم کا دم نکلنے میں دو سے تین سیکنڈ لگتے ہیں۔صابر مسیح کا کہنا ہے کہ اگرچے اس عرصے کے دوران مجرم کا دم نکل جاتا ہے لیکن قانون کو مطابق مجرم کو آدھے گھنٹے تک تختہ دار پر لٹکایا جانا ضروری ہوتا ہے۔انھوں نے کہا کہ 20 منٹ کے بعد وہاں پر موجود ڈاکٹر کے مجرم کے ہلاک ہونے کی تصدیق کے باوجود مجرم کی لاش کو دس منٹ تک مزید لٹکے رہنے دیا جاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ آدھا گھنٹہ پورا ہونے کے بعد لاش کو تختہ دار سے اتارا جاتا ہے جس کے بعد اس کے کپڑے تبدیل کرکے لاش ورثا کے حوالے کر دی جاتی ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر کسی مجرم کے ورثا لاش لینے نہ آئیں تو اسے قریبی قبرستان میں امانتا دفن کر دیا جاتا ہے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں