لاہور( این این آئی) وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے کراچی میں اس گرین لائن منصوبے کا علامتی افتتاح کیا جس کے لئے کوئی پیسہ نہیں رکھا گیا بلکہ اس کے پیسے لوٹ کر لندن میں فلیٹس بنا لئے گئے ، آپ بالکل افتتاح کیجیے لیکن اگر آپ نے خربوزے کھانے ہیں تو پھر اس کے بیج بھی کھانے پڑیں گے ، آپ کو بجلی کے مہنگے منصوبوں،
بیس ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کی ذمہ داری بھی لینا پڑے گی ، سروے کے مطابق عدلیہ اور پولیس کرپٹ ترین ادارے ہیں کیا عمران خان کی حکومت نے تین سال میں انہیں کرپٹ بنایا ہے ؟، بلکہ ہمارے دور میں ان میں بہتری آئی ہے ، امریکہ میں دس ملین لوگ ہر سال گھریلو تشدد کا شکار ہوتے ہیں ، برطانیہ میں یہ شرح 7.9فیصد ،ملائیشیاء میں4.9ہے اور بھار ت میں19فیصد تک ہے ،پاکستان کی جتنی گھنائونی تصویر دکھائی جاتی ہے اتنی ہے نہیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے گورنر ہائوس لاہور میں انسانی حقوق کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر صوبائی وزیر اعجاز عالم آگسٹین سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر شہباز گل نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے ذہن میں بہت کچھ سوچ رکھا ہے ،کئی دہائیوں بعد جب نارروال میں کچھ نہ کچھ بنے گا تو کہیں احسن اقبال اس وقت بھی علامتی افتتاح نہ کردیں کہ اس کا خواب تو میں سوچا تھا،اپوزیشن کو کہنا چاہوں گا بالکل افتتاح کیجیے لیکن اگر آپ نے خربوزے کھانے ہیں تو بیج بھی کھانے پڑنے ہیں۔آپ نے جو تباہی پھیلائی ہے ، جو کرتوت کئے ہیں اس کی ذمہ داری بھی لینا پڑے گی ،دنیا میں پاکستان کی جو جگ ہنسائی ہو رہی تھی اس کا ذمہ بھی لینا پڑے گا ،آپ ہوش کے ناخن لیں ، ایسا نہیں ہو سکتا کہ میٹھامیٹھا ہپ ہپ اورکڑوا کڑوا تھو تھو ۔ آپ نے ستر سال سے تباہی پھیری ہوئی ہے ،
کوئی ادارہ بہتر نہیں رہنے دیا ،آپ کے بیگاڑ پانچ ،دس سال میں درست نہیں ہوں گے بلکہ اس کے لئے وقت درکار ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جواشرافیہ ہے ان میں سے اکثریت اپنے رہن سہن کے لئے وسائل کے بارے میں نہیں بتا سکتی لیکن ایک دوسرے کی کرپشن کی وضاحتیں دیتے ہیں۔ جس دن یہ طے کر لیا گیا کہ جو بھی غلط
کرے گا اسے سزا دینی ہے تو پھر انسانی حقوق بھی ملیں گے ،سیاسی صورتحال بھی بہتر ہو گی ،حکومتوں کا بھی احتساب ہوگا،پھر کوئی حکمران کم ووٹ پڑنے سے بلیک میل نہیں ہوگا ،یہ نہیں ہوگا کہ اس چیز کوکریں ورنہ یہ کر دیں گے ، شوگر مافیا کے خلاف ایکشن لیا تو پھر کارروائی ہو گی ،لیکن اس کے لئے واضح فیصلے لینے پڑنے
ہیں ۔اوور سیز پاکستان یہاں آکر ہم سے تین سال میں نیا پاکستان بنانے کا تقاضہ کر تے ہیں لیکن ہم سے میرٹ سے ہٹ کر کام کی سفارش کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکہ میں دس ملین لوگ ہر سال گھریلو تشدد کا شکار ہوتے ہیں ان میں تین میں سے ایک عورت اور ہر چار میں سے ایک مرد گھریلو تشدد کا شکار ہوتے ہیں ، یہی صورتحال دنیا
کے دیگر ممالک میں بھی ہے ۔امریکہ میں 27فیصد خواتین کو ان کا خاوند ، بوائے فرینڈ یا پارٹنر قتل کر دیتا ہے ،گھریلو تشدد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ، برطانیہ میںگھریلو تشدد کی شرح7.9فیصد ہے حالانکہ امریکہ اور یورپ کی سوشل ویلیوز ایک ہی ہیں مذہب بھی ایک ہی ہے ۔ کلچر مزاج بنتے ہیں اس کا بھی عمل دخل ہوتا ہے ، اس میں
لکھاریوں کا اورادب سے وابستہ لوگوں کاگہرا اثر ہوتا ہے ۔ ایک مسلمان ملک ملائیشیاء ہے وہاں پرگھریلو تشدد کی شرح4.9ہے ،بھارت میںیہ شرح19فیصد ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیالکوٹ میں جو واقعہ ہوا وہ بد نما واقعہ ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے لیکن جب انسان حیوان بنتے ہیں تو پاکستان میںحیوان بنیں، امریکہ
میں بنیںیابھارت میںبنیں نتیجہ وہی نکلتا ہے ، اس کا حل معاشروں میںملک عدنان جیسے انسانوں کا ہونا ضروری ہے ۔ آج ہمارے مسائل کی وجہ بزرگوں کا چیک اینڈ بیلنس کا کم ہونا ہے ۔ پاکستان میں عورت کو ووٹ کا حق1947میں ہی مل گیا تھا جبکہ کینیڈا میں 1960،آسٹریلیا میں 1962 اورسوئٹز ز لینڈ میں1971میں ملا ، پاکستان میں تو
1988ء میں خاتون کو وزیر اعظم بنا دیا گیا تھا ، ہمارے کلچر کے حوالے سے غلط فہمیاں ہیں۔انہوںنے کہا کہ پاکستان میں این جی اوز خواتین کے حقوق پر بات کرتے ہوئے نظر آتی ہیں لیکن انسانی حقوق پر اس طرح بات نہیں ہوتی جس کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہاں پر امیر اور غریب کا فرق ہے ان کے لئے دو پاکستان ہیں او
راس کی وجہ قانون کی عملداری نہ ہونا ہے ۔ میرا ہتک عزت کا دعویٰ دو سال سے چل رہاہے حالانکہ میں حکومتی عہدیدار ہوںاور ایسا لگتا ہے کہ یہ دو چار سال او ربھی چلے گا ۔جب تک قانون کی عملداری نہیں ہو گی کوئی معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کے منصوبوں کے حوالے سے چار ہزار حکم
امتناعی ہیں،مسابقتی کمیشن نے 27کروڑ روپے جرمانہ کیا اس پر عدالت کابارہ سال حکم امتناعی رہا ، ہمارے دور میںشوگر ملوں کو چالیس ارب کا جرمانہ ہوا اس کا بھی حکم امتناعی آ گیا ہے۔یہاں جس کی مرضی پگڑی اچھال دیں کوئی قانون نہیں ہے ،خاتون عدالت نہیں جاتی اتنا لمبا کیس کون لڑے گا ،جب قانون کی عملداری ہو گی تو انسانی حقوق پنپ سکیں گے ۔