اسلام آباد(نیوزڈیسک)انتخابات 2013ء میں منظم دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کرنے والے تین رکنی عدالتی کمیشن کی رپورٹ پر تحریک انصاف میں کم از کم پانچ مختلف آراء یا ردعمل پائے جاتے ہیں جو اس کے اندر تقسیم اور الجھائو کو ظاہر کرتے ہیں،معروف صحافی طارق بٹ کے مطابق پارٹی کے سربراہ عمران خان کا مؤقف ہے ’’ میں رپورٹ کو تسلیم کرتا ہوں مگر تحفظات ہیں، الیکشن کمیشن کے ارکان استعفیٰ دیں، انکوائری کمیشن نے اپنا کام مکمل نہیں کیا، میں چیف جسٹس ناصرالملک اور ان کے ساتھیوں کے شاندار کام کو سراہتا ہوں، ہم احتجاج کیلئے سڑکوں پر نہیں آئیں گے اور اسمبلیوں میں واپس جائیں گے‘‘ تقریباً ان تمام سیاسی جماعتوں میں، جو فین کلب نہیں یا شخصیت پرستی مسلط نہیں، پارٹی سربراہ کی بتائی گئی پالیسی تمام کارکنوں و حامیوں کیلئے رہنما اصول ہوتے ہیں مگر پی ٹی آئی کے معاملے میں ایسا نہیں ، یا ممکن ہے عمران خان نے رپورٹ پر مختلف ردعمل کی منظوری دی ہو، رپورٹ پر ایک اور رائے پی ٹی آئی کے رہنما حامد خان ایڈووکیٹ کی ہے جن کا کہنا ہے کہ پارٹی نے پیشہ ورانہ طور پر کیس نہیں لڑا وہ ناکامی کے ذمہ دار پی ٹی آئی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ اور پارٹی رہنما جہانگیر ترین کو قرار دیتے ہیں، ایک اور نقطہ نظر پارٹی رہنما اسحاق خاکوانی کا سامنے آیا جن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی عوام کے پاس جائے گی اور بتائے گی کہ کمیشن نے انصاف نہیں کیا حالانکہ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی، چوتھا ردعمل پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کا ہے۔ جس نے اعلیٰ عدلیہ اور کمیشن کے ججوں کو براہ راست نشانہ بنایا، پانچویں سوچ سینئر رہنما جہانگیر ترین ظاہر کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے الزامات کو غیر حقیقی قرار اور مسترد کر کے کمیشن نے نظریہ ضرورت کو اپنایا ہے ان کے خیال میں رپورٹ کے پیراگراف 534سے یہ ظاہر ہوتا ہے۔اس پیراگراف میں کہا گیا ہے کہ اس رپورٹ کے ریاست کے نظم پر ممکنہ سنجیدہ نتائج اور لوگوں پر کریمنل اثرات کے تناظر میں کمیشن ’’Balance of Probabilities‘‘ سے کم درجہ کے ثبوت کو اختیار کرنے کو مناسب نہیں سمجھتا‘‘ تاہم ترین نے اس کو نظر انداز کر دیا جو کمیشن کے فیصلے کو درست ثابت کرتا ہے۔ پیرا گراف 530کہتا ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنے تحریری بیان میں مؤ قف اپنایا کہ الیکشن پٹیشن نمٹاتے ہوئے شواہد کا معیار شک و شبہ سے بالاتر ہونا چاہئے، مگر کمیشن کیونکہ انفرادی الیکشن پٹیشن نہیں سن رہا تو معیار ثبوت شک و شبہ سے بالاتر اور ’’Balance of Probabilities‘‘ کے درمیان ہونا چاہئے، کمیشن نے اس معاملے کو قانون کا معاملہ سمجھ کر انتہائی احتیاط سے دیکھا ہے۔