منگل‬‮ ، 16 ستمبر‬‮ 2025 

کمپیوٹر کے ناکارہ پرزے ڈھلے خوش رنگ تتلیوں میں!

datetime 28  جولائی  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوزڈیسک )تخلیقی ذہن رکھنے والے لوگ ناکارہ سمجھ کر پھینک دی جانے والی چیزوں کو بھی کام میں لے آتے ہیں۔ برطانیہ کی رہائشی جولی ایلائس چیپل بھی تخلیقی ذہن کی مالک ایک فن کارہ ہے۔ وہ کمپیوٹر کے ناکارہ سرکٹ بورڈ اور پرزوں کی مدد سے خوب صورت تتلیاں تخلیق کرتی ہے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ جولی ایلائس ناکارہ برقیاتی پرزوں کو اتنی مہارت سے تتلیوں میں ڈھالتی ہے کہ ان پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔فن کے اس منفرد رخ سے جولی کا تعارف کئی برس پہلے ہوا تھا جب اسے ایک کباڑیے کی دکان میں چھوٹے چھوٹے برقیاتی پرزوں سے بھرا ہوا ڈبا نظر آیا۔ ڈبے میں رکھے ہوئے رنگ برنگے پرزے جولی کو بہت بھلے لگے اور وہ انھیں خرید کر گھر لے آئی۔ جولی نے اپنے بچوں کے ساتھ مل کر کچھ پرزوں کو چیونٹیوں کی شکل دی۔ چند روز کے بعد وہ ڈبا الماری میں رکھ کر بھول گئی۔کچھ عرصے کے بعد جولی نے فائن آرٹس میں گریجویشن کرنے کی ٹھانی۔ پڑھائی کے دوران اس کی ملاقات کچھ ایسے طلبا سے ہوئی جو کمپیوٹروں کے پرانے سرکٹ بورڈوں سے روبوٹ بنانے میں لگے ہوئے تھے مگر کام یاب نہ ہوسکے۔ انھیں دیکھ کر جولی کو برقیاتی پرزوں سے خوب صورت اسٹرکچر تیار کرنے کا خیال آیا۔ جولی ان طالب علموں سے ناکارہ سرکٹ بورڈ لے کر گھر آگئی۔بورڈ اور اس پر نصب مختلف رنگوں کے پرزے دیکھ کر وہ سوچنے لگی کہ انھیں کس طرح آرٹ کے نمونوں کی شکل دی جاسکتی ہے۔ اس وقت جولی کے ذہن میں کچھ عرصہ پہلے بنائی گئی چیونٹیاں بھی تازہ ہوگئیں۔ پھر حشرات الارض پر ایک ٹیلی ویژن پروگرام دیکھتے ہوئے اس نے سرکٹ بورڈز اور پرزوں سے کیڑے مکوڑے بنانے کا فیصلہ کرلیا۔جولی نے عزم کرلیا تھا کہ وہ ناکارہ سرکٹ بورڈز اور پرزوں کو آرٹ کے ایسے نمونوں میں تبدیل کرے گی کہ دیکھنے والے حیران رہ جائیں گے۔ اس نے اپنے پروجیکٹ کو Computer Component Bugs کا نام دیا اور اپنے مقصد کی تکمیل میں جت گئی۔ چند ہی روز کے بعد اس کے مخصوص کمرے میں ہر طرف خوش رنگ تتلیاں، پتنگے اور بھنورے بکھرے ہوئے تھے۔پتنگوں اور بھنوروں سے زیادہ تتلیاں دل کش اور اصل سے قریب تر تھیں۔ اس لیے جولی نے زیادہ توجہ تتلیوںکی تخلیق پر دینی شروع کردی۔ جب اس نے اپنے کام کی نمائش کی تو دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ انھوں نے جولی کے کام کو بے حد سراہا۔جولی کا کہنا ہے اس پروجیکٹ کا مقصد برقیاتی فضلے کی بڑھتی ہوئی مقدار کے بارے میں آگاہی پھیلانا ہے جس سے ماحول کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



Self Sabotage


ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…